ہدایت الرحمن کا بلوچ طلبہ اور خواتین کیخلاف نازیبا الفاظ کا استعمال قابل مذمت ہے، بی ایس او

کوئٹہ (نامہ نگار ) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن کے گزشتہ دنوں ایک صحافی کو انٹریو کے دوران بلوچ طلباءاور خواتین کے متعلق نازیبا بیان پر سخت رد عمل دیتے ہوئے اسے دانستہ طور پر بلوچ تحریک میں خواتین اور طلبہ کے کردار کو متنازع بنانے کی سازش قرار دیا ہے۔ ترجمان بی ایس او نے کہا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک انٹرویو میں مولانا ہدایت الرحمن پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباءکی جانب سے بلوچ و پشتون طالبعلموں پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ بلوچ طلباءجامعہ پنجاب میں غیراخلاقی حرکات کرتے ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ مولانا اپنی جماعت کی طرف داری میں اس حد تک غیر سیاسی ہوجاتے ہیں کہ وہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباءپر منشیات کے استعمال سمیت فحاشی جیسے گھٹیا الزامات لگاتے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے جامعہ بلوچستان میں پڑھنے والی بلوچ و پشتون خواتین کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے اور جامعہ بلوچستان میں جنسی ہراسانی کے سکینڈل کی ذمہ داری سے جامعہ انتظامیہ اور سرکار کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سکینڈل کی ذمہ دار طلبا و طالبات کو قرار دینے سے واضح ہوگیا کہ موصوف ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کارفرما ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ مولانا ہدایت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے تو خواتین کو سیاسی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کے لئے باہر نکالتے ہیں جس کی واضح مثال رواں سال گوادر میں ہونے والی خواتین کی ریلی ہے لیکن انہیں بلوچ خواتین کا جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مناسب نہیں لگتا۔ جب اپنے سیاسی عزائم کیلئے مولانا نے ہزاروں بلوچ خواتین کو سڑکوں پر نکال کر احتجاج کیا جبکہ دوسری جانب انہی بلوچ خواتین کی کردار کشی کرکے انکے تعلیمی کیرئیر پر اثرات مرتب کررہے ہیں۔ بی ایس او کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس سے پہلے بھی موصوف بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو فحاشی کا اڈہ قرار دے چکے ہیں۔ اس طرح کے غیر مہذب الفاظ کا استعمال اس بات کی عکاسی ہے کہ موصوف ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بلوچستان کی روایات کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ ترجمان بی ایس او نے آخر میں کہا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی ادارے ہمارے گھر ہیں جہاں بلاتفریق مرد ق خواتین بلاتفریق تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مولانا کے بیان سے تمام طالبعلموں کی نہ صرف دل آزاری ہوئی بلکہ مذہبی جنونیت میں مبتلاءہوکر مولانا نے بلوچ خواتین کی کردار کشی کی۔ موصوف اپنے بیان پر پوری قوم سے معافی مانگیں

Post a Comment

Previous Post Next Post