بلوچ خاتون خودکش بمبار کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جعلی تھا، خاتون زیرحراست تھیں۔زرمبش رپورٹ

کیچ تمپ: خاتون خودکش بمبار کے حوالے سے پاکستانی فوج اور سیکورٹی حکام کے جعلی تھریٹ الرٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ زلیا نامی جس خاتون کو خودکش حملہ آور بتا کر کراچی ائرپورٹ اور دیگر مقامات پر تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا اس خاتون کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ اس الرٹ سے قبل پاکستانی سیکورٹی فورسز کی زیرحراست تھیں جنھیں تین دن جبری لاپتہ رکھنے کے بعد خاموشی سے رہا کردیا گیا۔ حبیبہ پیرجان کی جبری گمشدگی کے بعد یہ پاکستانی سیکورٹی حکام کی ایسی دوسری ماورائے قانون گرفتاری ہے جس میں خاتون کے ایک رشتہ دار کے کہنے پر خاتون کو خودکش بمبار ہونے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا۔حبیبہ پیرجان کے قریبی رشتہ داروں کے مطابق حبیبہ پیرجان کو ان کے سسرالی  رشتہ داروں نے خودکش بمبار بتاکر جبری لاپتہ کروایا تھا۔ 31 مئی 2022 کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے زلیا نامی ایک شادی شدہ خاتون کی تصویر جاری کرکے انھیں خاتون خودکش بمبار بتاکر جعلی تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا۔ اس جعلی تھریٹ الرٹ میں لکھا گیا تھا کہ 28 مئی 2022 کی رات یہ پتا چلا کہ ایک  22 سالہ خاتون جس کی شناخت زلیا بنت محمد حیات، زوجہ شعیب سکنہ آسیاباد تحصیل تمپ ضلع کیچ کے نام سے ہوئی ہے جو کہ اپنے گاؤں سے لاپتہ ہیں۔جبری لاپتہ خاتون بی این اے سے وابستہ ایک سرمچار کی بہن ہیں۔ جعلی تھریت کے مطابق زلیا شاری بلوچ کی کراچی یونیورسٹی کے فدائی حملے کے بعد اس سے متاثر تھیں اور ان کی پیروی کرنا چاہتی تھیں۔29 مئی کو زلیا نے اپنی بہن کو فون پر بتایا کہ وہ آواران میں فدائی کے لیے جا رہی ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ پاکستانی میڈیا رپورٹ کے مطابق ائرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) نے ممکنہ خاتون خودکش بمبار کے حوالے سے تمام ائرپورٹ پر الرٹ جاری کردیا اور ممکنہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کی 2تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن شاہ میر حسین نے تمام متعلقہ افسران کو مراسلہ تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  28،29  مئی کی رات کو یہ انکشاف ہوا ہے کہ زالیا دختر محمد حیات زوجہ شعیب جس کی عمر 22 برس ہے اور وہ ضلع کیچ کی رہائشی ہے، مذکورہ خاتون کراچی یونیورسٹی کے بم دھماکے میں ملوث شاری بلوچ سے متاثر ہے، اس کا تعلق بھی ایک کالعدم تنظیم سے ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مکمل طور پر جعلی تھا اور اس وقت جاری کیا گیا تھا جب  زلیا  زیر حراست تھیں۔علاقائی ذرائع نے ریڈیو زرمبش کو بتایا کہ زلیا کے شوہر ’شعیب‘ منشیات کا عادی ہے اور پاکستانی فوج کے لیے مخبری بھی کرتا ہے۔جو زلیا کے ساتھ نارواسلوک کرتا تھا اور اسے مارپیٹ کر الکحولک مشروب پینے پر مجبور کرتا تھا۔ شوہر کی ان زیادتیوں سے تنگ آکر زلیا اپنے والدین کے گھر منتقل ہوئیں۔ ان کی جبری گمشدگی کے چند دن پہلے ان کے والدین اور دیگر رشتہ داروں نے انھیں اپنے شوہر کے پاس جانے پر مجبور کیا جس پر وہ بادل نخواستہ اپنے شوہر کے گھر لوٹ گئیں۔ شوہر نے گھر واپس آنے پر اس کی فوج سے شکایت کی کہ وہ شاری کی پیروی میں ’فدائی‘ بننا چاہتی ہیں جس پر پاکستانی فوجی حکام نے انھیں 28 مئی 2022 کو ان کے گھر سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔ان کے بھائی اور بہنوں کو ان کی جبری گمشدگی کی اطلاع پاکستانی سیکورٹی حکام کی طرف سے ’تھریٹ الرٹ‘ جاری ہونے اور پاکستانی میڈیا میں خبر نشر ہونے پر ہوئی جس پر انھوں نے پریشانی میں ان کی تلاش کے لیے رابطے شروع کیے۔ تحقیق کے مطابق پاکستانی فوج نے ان کے شوہر کے کہنے پر انھیں حراست میں لیا اور جلدبازی میں جعلی تھریٹ الرٹ جاری کیا تاکہ آگے چل کر جب وہ ان کی گرفتاری ظاہر کریں تو انھیں اپنی ’شاندار کارکردگی‘ پر داد بٹورنے کا موقع مل سکے اور ممکنہ عوامی ردعمل کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔ زلیا کو دوران حراست اپنے بھائی امیر ولد محمد حیات کو فون کرنے کو کہا گیا جو کہ جام گوٹھ ضلع ملیر کراچی سندھ میں مدرسے میں زیر تعلیم ہیں۔زلیا کو کہا گیا کہ وہ  اپنے بھائی کو فون پر بتائے کہ وہ ان کے پاس آ رہی ہیں جس پر  زلیا نے ان کی ہدایت عمل کرتے ہوئے اپنے بھائی کو جس کے بعد ان کے مذکورہ بھائی کو بھی پاکستانی سیکورٹی حکام نے غیرقانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس گرفتاری پر متاثرہ خاندان اور انسانی حقوق کے اداروں کے ردعمل کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے سیکورٹی حکام کو زلیا اور ان کے بھائی کو رہا کرنا پڑا جن پر خودکش بمبار ہونے کا بے بنیاد الزام  لگایا گیا تھا اور ائرپورٹ سیکورٹی فورس کو غلط معلومات فراہم کرکے ائرپورٹس پر الرٹ جاری کروایا گیا تاکہ اپنی جھوٹی کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرا جاسکے۔ زرمبش کے رپورٹر کے مطابق حبیبہ پیرجان اور زلیا محمد حیات کی جبری گمشدگی کی وجوہات میں مماثلت پائی جاتی ہیں۔پاکستانی سیکورٹی حکام نے جھوٹے دعوے اور اپنے مخبروں کی ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر دونوں مذکورہ خواتین کو گرفتار کیا اور انھیں جبری لاپتہ رکھا۔ حبیبہ پیرجان بھی تمپ کی رہائشی ہیں ، ان کے شوہر بھی منشیات کا عادی ہے جس کے باعث حبیبہ پیرجان نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے اور اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے کراچی میں مقیم ہیں۔ انھیں بھی مبینہ طور پر ان کے سسرالی رشتہ داروں نے پاکستانی فوجی اداروں کے ہاتھوں جھوٹی مخبری کے ذریعے گرفتار کروایا۔اسی طرح زلیا بھی تمپ کی رہائشی ہیں اور ان کا شوہر بھی منشیات کا عادی اور اس پر الزام ہے کہ وہ پاکستانی فوجی اداروں سے رابطہ رکھتا ہے، انھیں ان کے شوہر نے ازدواجی تعلقات میں ناچاقی کے باعث انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ کروایا۔ بلوچستان میں ایسے کئی افراد ہیں جو مخبروں کی غلط بیانی اور ذاتی دشمنی کی بنیاد پر پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ایسے افراد بھی پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلز میں قید ہیں جو پاکستانی فوجی حکام  کے لیے کام کرتے تھے اور ذاتی رنجش کے باعث جبری لاپتہ کیے گئے ہیں۔ 30 اگست 2016 کو کلی قاسم خان دالبندین ضلع چاغی سے جبری لاپتہ کیے جانے والے حفیظ اللہ محمد حسنی کی جبری گمشدگی اور دوران حراست قتل ایک نمایاں کیس ہے۔جس میں ایک میجر نے  پیسوں کے لین دین پر اپنے سابق دوست اور فوجی سہولت کار حفیظ اللہ محمدحسنی کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کیا اور اس کی رہائی کے لیے خاندان سے 68 لاکھ روپے بھی وصول کیے، لیکن مذکورہ شخص کی بعد ازاں مسخ شدہ لاش ملی۔ خاندان کی شکایت پر میجر کا کورٹ فیلڈ جنرل مارشل ہوا جس میں جرم ثابت ہونے پر میجر کو عمر قید کی سزا ہوئی۔  خاندان کی طرف سے ماما قدیر کی سربراہی میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیمپ میں طویل عرصے تک احتجاج کی وجہ سے  یہ کیس میڈیا پر بھی ہائی لائٹ ہوا تھا ۔مگر یہ جبری گمشدگی کا واحد ایسا معاملہ نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں افراد  جبری لاپتہ ہیں جو صرف مخبروں کے ذاتی بغض اور عناد کی وجہ سے یا فوجی حکام کی طرف سے طلب کیے گئے زرتاوان کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post