خیر بخش کے فلسفے پر چلتے ہوئے ہمیں ہماری جنت مل سکتی ہے، محمد علی تالپور

خیر بخش مری کی آٹھویں برسی کے حوالے سے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ریفرنس میں شریک مقررین استاد محمد علی تالپور، پروفیسر منظور بلوچ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما شاہزیب بلوچ نے اپنے اپنے خطاب کیے۔ اس موقع پر نواب خیر بخش مری کے دیرینہ ساتھی سندھ سے آئے ہوئے استاد محمد علی تالپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں خیر بخش مری کا ایک ادنیٰ سے شاگرد ہوں ہماری ایک عرصے تک رفاقت رہی، میری بلوچ قومی تحریک سے وابستگی کو 50 سال مکمل ہوگئے، میں نے اپنی پوری زندگی تحریک کیلئے وقف کردی۔ میں رہتا تو حیدرآباد سندھ میں ہوں لیکن میرا دل اور میری روح مری علاقے میں ہے جہاں سے میں بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہوا، اور میری روح ہمیشہ وہیں رہے گی۔ میری مٹی بھی یہیں کی ہے اور میری روح بھی یہیں کی ہے، اور ہم سب کو مل کر اس سرزمین کو روح گل بنانا ہوگا۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن صرف ایک عرض کروں گا کہ شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ یہ طریقت کیخلاف ہے کہ اولیا خدا کے سوا خدا سے کوئی اور چیز مانگے، ایک بلوچ قوم پرست کیلئے اگر وہ خدا سے بلوچستان کے سوا اور کچھ مانگے تو وہ کفر ہے۔ نواب صاحب اگر اس طریقت پر نہ چلتے تو ان کو کیا کچھ نہیں مل سکتا تھا۔ مجھے یہ اعزاز ہے کہ وہ مجھے بہت چاہتے تھے، ایک دفعہ کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میرے پاس بہت پیسے ہیں، اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو میں اپنے داماد کے گھر نہیں رہتا۔ اگر ہم بابا کی بتائی ہوئی باتوں پر چلیں گے تو ہمیں ہماری جنت ملے گی، ورنہ ہم اسی طرح چلتے رہیں گے۔ قوم پرستی ایک بہت ہی مقدس چیز ہے، جس طرح خدا کے ساتھ جوڑنا بہت بڑا گناہ ہے، اسی طرح قوم پرستی کے ساتھ جوڑنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور برائی کی کوئی معافی نہیں ہے۔ نیشنلزازم میں بھی طریقت ہے اگر آپ اس میں شرک کریں گے، اپنا فائدہ ڈھونڈیں گے، اپنے بچوں کا فائدہ ڈھونڈیں گے تو وہ شرک ہے۔ جو لوگ بلوچ قوم کی جدوجہد میں شہید ہوئے ہیں وہ بلوچستان کے نام کو بدنام نہ کریں، اس راہ پر چلیں جس کی تاکید بابا کرکے گئے ہیں۔ کراچی میں مسنگ پرسن کے احتجاجی کیمپ میں نے کچھ لوگوں کے پوچھنے پر کہا کہ جن باتوں کے کہنے پر بلوچوں کو لاپتہ کردیا جاتا ہے وہ ضرور حق پر مبنی ہیں۔ جو لوگ باہر بیٹھے ہیں یا جو لوگ پہاڑوں پر بیٹھے ان کی ہی جدوجہد سے باقی کچھ بچا ہوا ہے ورنہ تو یہ لوگ قدوس بزنجو کو بھی کوئی نوکری نہیں دیتے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ نوجوان کسی کی باتوں میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ بابا کے فلسفے پر کاربند ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں جہاں پوری بلوچ سیاست تابع حکم شرکت اقتدار میں گرتی پڑتی سرنگوں تھی، دوسری طرف نواب خیر بخش مری سیاسی شعور، بلوچ نیشنلزم کے درس میں مصروف تھے۔ بابا زندہ ہے کیونکہ بابا ایک فکر، ایک فلسفہ کا نام ہے، بابا بلوچ قوم اور دنیا کے مظلوم اور محکوم قوموں کا لیڈر ہے غلام قوموں کی آزادی کا نشان ہے، بابا جیسے انقلابی لیڈر دنیا میں بہت کم پیدا ہونگے۔ اس موقع پر صورت خان مری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس روز بلوچوں نے بابا مری کے جسد خاکی کو دفنایا تھا ان کے افکار، سیاسی سوچ اور نظریے کو نہیں

Post a Comment

Previous Post Next Post