پاکستان کے
وزیر اعظم شہباز شریف ملک میں عید الفطر کی تقریبات کے فوراً بعد پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی پلان کا جائزہ لیں گے، پیر کو ایک مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ نے رپورٹ کیا۔
گذشتہ ہفتے کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے مرکز کے قریب ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا جس کے نتیجے میں تین چینی شہری اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوگئے جبکہ ایک چینی شہری و رینجرز اہلکار زخمی ہیں۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق یہ حملہ، جس کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی، خاص طور پر چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
دی ایکسپریس ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ “چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) اور دونوں ممالک کے درمیان دیگر مشترکہ منصوبوں کو درپیش ممکنہ خطرات کے پیش نظر، وزیر اعظم پاکستان چینی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پہلے وضع کیے گئے تمام میکانزم کا جائزہ لیں گے اور نئے منصوبے کا جائزہ لیں گے۔”
اس میں مزید کہا گیا کہ “سیکیورٹی پلان عید کے بعد پہلے ہفتے میں وزیر اعظم شہباز کو پیش کیا جائے گا۔”
سرکاری ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ وزیر اعظم نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے کنٹری ہیڈز سے ملاقات کریں تاکہ اس معاملے پر ان کی رائے بھی حاصل کی جاسکے۔
متوقع ہے کہ احسن اقبال عید کے بعد گوادر کا دورہ کریں گے تاکہ سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آیا وہاں کام کرنے والے چینی شہریوں کو کوئی شکایت ہے یا نہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق، “اس کے علاوہ، وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ گوادر میں سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے صوبوں، خاص طور پر بلوچستان حکومت کو شامل کریں اور عید کے بعد پہلے ہفتے میں رپورٹ پیش کریں۔”
پاکستان کا شمالی علاقہ گلگت بلتستان بھی ایک “صوبائی غیر ملکی سیکورٹی سیل، مطلوبہ عملے اور لاجسٹکس کے ساتھ” قائم کرے گا، جس کے پاس علاقے میں آنے والے تمام چینی شہریوں کے بارے میں معلومات ہوں گی۔
پاکستان میں، خصوصاً بلوچستان میں سی پیک و دیگر منصوبوں سے منسلک چینی انجینئروں، کارکنوں و شہریوں کو ماضی میں بھی بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیوں و دیگر نے نشانہ بنایا ہے۔
جولائی 2021 میں، 10 چینی شہری صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بس میں دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ج
سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنے سمیت بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر گذشتہ سالوں سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔
11 اگست 2018 کو بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چائنیز انجینئروں کے بس کو، 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چائنیز قونصلیٹ کو اور 11 مئی 2019 کو گوادر میں پانچ ستارہ ہوٹل کو بلوچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ جولائی 2020 میں کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج اور 20 اگست 2021 کو گوادر میں چائنیز انیجنئروں کے قافلے کو خودکش حملے نشانہ بنایا گیا جبکہ گذشتہ دنوں 26 اپریل کو کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے چینی اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا۔ ان تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے مذکورہ حملوں کے بعد بیانات میں واضح کیا کہ یہ حملے تنظیم کے مجید بریگیڈ کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ جبکہ تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ بی ایل اے چین کو ایک بار پھر یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے استحصالی منصوبے اور قابض کی معاونت بند کردے، بصورت دیگر ہمارے اگلے حملے کئی گنا زیادہ شدید تر ہونگے۔
چینی حکام نے نہ صرف ایسے واقعات کی مذمت کی ہے بلکہ پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ان کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔