بلوچ لڑکی نے بلآخر اقوام متحدہ کو جگا دی ۔ تحریر سمیر جیئند بلوچ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کی نہ صرف مذمت اور چینی اساتذہ کے اہلخانہ سے تعزیت کی ہے۔ بلکہ یہ بھی اعلان کیاہے کہ دہشت گردی کی کوئی بھی کاروائی مجرمانہ اور بلاجواز ہے ،مزید کہاکہ عالمی برادری دہشت گردی کے جڑ سے خاتمے کیلے فعال تعاون کرے،دہشت گردوں کے سرغنہ اور مالی معاونین کو قانون کے کٹہرے میں لایاجائے۔ یہ سلامتی کونسل کی بیان دیکھ کر وہ وسوسے ختم ہوگئے کہ اقوام متحدہ صرف نام کا رہ گیاہے اور انھیں کسی کے درد کا احسا س نہیں ہے۔ مگر اس اجلاس میں ثابت ہواکہ موصوف نہ صرف تندرست اور توانا ہے بلکہ ان کی بینائی او سماعت بھی فزیکلی کام کر رہی ہے ۔ اور ان کی نظر ہر اس واقع پر ہے جہاں کوئی دہشت گردانہ واقع رونما ہو۔ آگے چل کر یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ ڈیپ ریاست پاکستان بلوچستان پر قبضہ کرکے پچھلے چہتر سالوں سے وہاں کے بلوچ اقوام کی نسل کشی کرکے انکے وسائل لوٹ رہی ہے،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ بلوچستان کے بلوچ بیلٹ میں روزانہ کے بنیاد پر پاکستانی فوج غیر اعلانیہ جیٹ اور جنگی ہیلی کاپٹروں سے آگ اور آہن برسا رہی ہے ۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور فورسز نے پچاس ہزار سے زیادہ بلوچ نہتے لوگوں جن میں عام چرواہے سے لیکر طلباء،سیاسی غیر سیاسی،سماجی لوگ شامل ہیں غیر قانونی طورپر لاپتہ کئے گئے ہیں اور مزید روزانہ کی بنیاد پرجبری طورپر لاپتہ کئے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کو یہ بھی یاد ہے کہ پچھلے سالوں توتک خضدار سے دواجتماعی قبریں برآمد ہوئی تھیں، ان میں دوسوکے قریب افراد کے ڈھانچے موجود تھے ۔ ایک دوکے علاوہ کوئی بھی شناخت کے قابل نہیں بچا تھا ، اور نہ ہی انھیں قتل کرنے والی ریاست پاکستان نے ان کی ڈین این اے کروانا مناسب سمجھی۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ بلوچ نوجوان اپنی جگہ، بلوچ خواتین کیوں خود کش بمبار بننے پر مجبور ہورہی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ وہ پاکستان اور اس کے اتحادی چین کے استعماری رویوں اور اپنے معدنی وسائل کی انکی ہاتھوں لوٹ مار سے عاجز آچکی ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستانی فوج کس طرح چند دن قبل نوکنڈی میں نہتے بلوچ ڈرائیوروں کو گولی اور صحرامیں پیاس سے موت کے منہ میں دھکیل دی تھی ۔ تب ہی انھیں ٹھوس معلومات کی بنیاد پر انھوں نے اعلان کیاہے کہ وہ دہشت گردوں اور انکے معاونین کے خلاف کاروائی کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہاں ان سے یہ ضرور بات چوگ گئی ہے کہ انھوں نے بلوچستان میں پاکستانی درندگی اور لوگوں کو ماورائے قانون قتل کرنے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے،اور خواتین بچوں پر بمباری اور ان پر ہونے والے ریپ کا زکر نہیں کیا،اور یہ بھی نہیں کہاہے کہ کس طرح بلوچوں کے گھر پاکستانی فوج بلڈوز کرتی، فصلیں جنگلات جلاتی،اور انکے گھروں میں لوٹ مار کرکے انکے مال مویشی چھین کر بازاروں میں کوڑیوں کے دام بیچتی ہیں ۔ ان موضوعات کو زیر بحث نہ لائے جانے کا مقصد یہ تھی کہ فلحال ان پر تین چینی اساتذہ کے مارے جانے کا صدمہ اتنا بھاری تھا کہ وہ یہ کہنا بھول ہی گئے،اور بھولیں بھی کیوں نہیں چین سالانہ اقوام متحدہ کو جو فنڈنگ کرتی ہے اس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے،تب ہی تو چینی خون کا رنگ انھیں لال اور بلوچ کا پھیکا نذر آرتا ہے۔ بلوچ بھی اقوام متحدہ کو سالانہ فنڈنگ کریں دیکھیں کیسے انکا خون بھی اقوام متحدہ سمیت دنیا کو چینیوں کی خون کی طرح لال لال نذر آجاتی ہے ۔ اور یہی بلوچ خاتون شاری جو انھیں اس وقت دہشت گرد نذر آئی وہ کیسے معصوم پاکستانی ظلم بربریت سے تنگ لکھی پڑھی سکالر بن جاتی ہیں ،جو وہ حقیقی معنوں میں تھی۔ یہاں صرف اتنا کہناہے کہ اقوام متحدہ کے پاکستان کو چھوڑ کر مہذب ممالک اور کونسل کو سوچنا چاہئے کہ تعلیم یافتہ سکالر بلوچ خاتون خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہو رہی ہیں ۔؟ یہ انکا ری ایکشن ہے ان پر ایکشن کیاہواہے۔ کیا پاکستان کے ظلم میں کوئی اور ممالک یا اقوام متحدہ کی چپ اور روزہ شامل نہیں ہے۔ جب وہ اس پر سوچیں گے تو انھیں پتہ چل جائے گا کہ پاکستان اور چینی ریاست کتنے بدتہذیب ، دہشت گرد اور بلوچستان میں بلوچ قوم کا استحصال کرنے والی ریاستیں ہیں۔اور اپنا گریبان بھی دکھ جائے گا کہ کیا ہم پچھلے چہتر سالوں سے پاکستانی ریاست اور بے لغام فوج کی ظلم بربریت کو نذر انداز کرکے کہیں غفلت کی نیند کا شکار نہیں ہوئے ہیں ۔؟

Post a Comment

Previous Post Next Post