ریاست کو باغیوں اور سیاسی سرگرمیاکرنیوالوں میں فرق کرنا چاہیے، سمی دین

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکر ٹری جنرل اوربلوچ و انسانی حقوق پر کام کرنے والے سیمی دین بلوچ نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہونے والے سانحہ کے بعد بلوچ طلبا کے لیے یونیورسٹیوں میں رہنا، پڑھنا اور عام معمول کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اُن کے بقول ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے۔ ریاست کو باغیوں اور سیاسی سرگرمیاں کرنے والوں کے درمیان فرق کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی میں تھی، اس کے بعد وہ شادی کرنے کے بعد پنے گھر میں رہیں، اتنے برسوں میں ان کا تعلق کس کے ساتھ رہا اور کون کون ان کے ساتھ رابطہ میں رہا، اس پر تعلیمی ادارے کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں صرف مرد طلبہ کے حوالے سے فکر ہوتی تھی لیکن اب خواتین کے حوالے سے بھی ہم پریشان ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ کچھ عرصہ میں خواتین کے ساتھ بھی سختی ہو اور ان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہو سکتا ہے۔ سیمی دین بلوچ نے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں اور روزانہ آنے جانے والے طلبہ کا ریاست کے باغیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہی دیکھا جائے تو وہاں پر سخت سیکیورٹی ہے۔وہاں پر وائس چانسلر کی اجازت کے بغیر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر ایسا واقعہ ہونا افسوسناک ہے جو اب دیگر طلبہ کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post