طالب علم حفیظ بلوچ کی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کیخلاف پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے جاری پر امن احتجاج پر پولیس نے حملہ کرکے طلبا کو شدیدتشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس کے حملے و تشدد سے متعدد طلبا شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
سوشل میڈیا میں گردش کرتی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے بلوچ طلبا کے پر امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کیلئے بلاجواز طلبا کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ویڈیو میں جاسکتاہے کہ بلوچ طلبا کے احتجاج پر جب پولیس حملہ کرتا ہے تو انسانی حقوق کے علمبردار اور وکیل ایمان مزاری جو طلبا کے احتجاج میں شامل ہیں ان کے سامنے ڈال بن جاتی ہیں اور شدیدمزاحمت کرتی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل نے کہا کہ پرامن بلوچ طلباپر آئی سی ٹی پولیس نے اس وقت حملہ کیا جب ہم حفیظ بلوچ کی بحفاظت بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم اسی رویے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو ہمیں ہراساں کیا گیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل نے پر امن احتجاج پر پولیس حملے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء کو آئی سی ٹی پولیس نے مشکل سے مارا پیٹا۔
انہوں نے کہا کہ ایسی غیر انسانی درندگی قابل مذمت ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل نے کہناتھا کہ متعدد زخمی طلبا کو ہسپتال داخل کردیا گیا ہے۔
کونسل نے واقعہ کیخلاف تمام طلباسے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے فوری طور پر آئیں۔
پولیس حملے کے وقت محسن داوڑ بھی موجود تھے جواسلام آباد پریس کلب سامنے بلوچ طلبا کے احتجاج کی حمایت میں شریک تھے۔
بلوچ طلبا کے پر امن احتجاج پر پولیس کی لاٹھی چارج و تشدد کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نامور صحافی عاصمہ شیرازی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کے طالبعلم حفیظ بلوچ کے لاپتہ ہونے کے معاملے پر یونیورسٹی طلباء کا اسلام آباد میں پرامن احتجاج اور پولیس کا لاٹھی چارج۔ کیا احتجاج صرف حکومتی پارٹی کا اختیار ہے؟
افراسیاب خٹک نے لکھا کہ اسلام آباد میں حفیظ بلوچ کی جبری گم شدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے بلوچ طلبا پر اندھادھند لاٹھی چارج قابل مذمت ہے، ناروا ظلم کے خلاف ملک کے دارالحکومت میں پرامن احتجاج کی اجازت نہ دے کر آپ بلوچ نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ دیر ہونے سے پہلے ظلم بند کریں۔
اسی طرح لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکرٹری جنرل سمی دین بلوچ نے بلوچ طلبا کے پر امن احتجاج کے موقع پر انسانی حقوق کے وکیل ایمان مزاری کی جرأت کوسراہتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے ایڈوکیٹ ایمان مزاری صاحبہ ہمت و جراَت کے ساتھ بلوچ طلباء کے شانہ بشانہ پولیس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزاری صاحبہ ہر پلیٹ فارم پر ہر مظلوم کے ساتھ نظر آتی ہے اور ایسے لوگوں سے ہمت ملتی ہے۔
سمی بلوچ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے یہ تشدد اور جارحانہ رویہ پہلی دفعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی گزشتہ سال فروری کے مہینے میں بلوچستان سے آئے ہوئے گمشدہ افراد کے بہنوں اوربوڑھی ماؤں پراسی طرح تشدد اورلاٹھی جارج کیاگیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہوسکتی ہے لیکن بلوچوں کے پرامن مظاہرین پرتشدد ہوتی ہے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ اسلام آباد میں بلوچ طلبہ پر تشدد افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ایک طرف بلوچوں کو آئین و قانون کی طرف بلایا جاتا ہے، دوسری طرف دارالحکومت میں پرامن احتجاج کے آئینی و جمہوری حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ اس تضاد کے ساتھ آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔