بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اورشہدا کے فیملی کابھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے 4628 دن ہو گئے۔
بی ایس ایف شال زون کے صدر ظفر واحد سی سی ممبر گل حسن بلوچ اور انفارمیشن سیکریٹری معراج لال نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کے لاپتہ بلوچوں کی طویل عرصہ سے عدم بازیابی انہیں ریاستی حراست میں شہید کر کے کسی نامعلوم مقام پر ہے، اِس حوالے سے سابقہ حکومت کا یہ بیان لائق خدشات کو یقین میں بدل رہا ہے کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد میں متعدد دوران حراست میں مارے جا چکے ہیں ان میں سے بعض کو اسلام آباد اور پنجاب میں بھی دفنائے جانے کی بازگشت بھی سنی گئی ہے، جس پر بلوچ قوم نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانی حقوق امن و انصاف اور جمہوریت کے نام لیواوں کی توجہ بلوچ نسل کشی کے اس سفاکانہ عمل کی طرف مبزول کرائی ان بھیانک جرائم کی عالمی برادری نے تو مزمت اور اظہار تشویش کرتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا مگر پاکستانی میڈیا اور سیاسی مزہبی جماعتوں کی قیادت مکمل خاموش اور لاتعلق رہیں یہی کچھ اجتماعی قبروں کی دریافت کے اندوہناک المیے پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توتک کوئٹہ تیرہ میل کراچی مواچ گمنام قبرستان میں ملنے والی لاشوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین اور ورثا کے کرب اور بے سکونی میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے وہا پوری بلوچ قوم گہرے صدمے سے دو چار اور سراپا احتجاج ہے مگر پاکستانی حکومت سمیت نام نہاد سول سوسائٹی بلوچ قوم کی نسل کشی کو جائز سمجھتی ہے کیونکہ نہ تو بلوچوں کی ماوراے اغوا نما گرفتاریوں اور تشدد زدہ مسخ لاشوں کے پھنکنے کا سلسلہ تھم سکا ہے اور نہ ہی ان اندو ہناک واقیات پر زمہ دار ریاستی کارندوں اور ان زر خرید حواریوں کے خلاف کوئی عمل کاروائی عمل میں لائی گئی ہے اور سارا زور محض لفاظی و بیان بازی پر دیا جا رہا ہے حکومت اپنی تمام لفاظی کے باوجود بلوچ کش ریاستی کاروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔