بنجمن فرینکلن امریکا کے بابائے ریاست ہیں‘ یہ قومی سطح پر پہنچنے سے پہلے پنسلونیا کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے‘ یہ اس دور میں اپنے اخلاقی ایجنڈے کی وجہ سے بہت متنازع تھے‘ ریاستی اسمبلی میں ان کا ایک خوف ناک ناقد اور مخالف ہوتا تھا‘ بنجمن فرینکلن کی ہر بات‘ ہر اچھی بری کوشش پر خوف ناک مخالفت اس کی زندگی کا بڑا مقصد تھا‘ وہ فرینکلن کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن اس تمام تر مخالفت کے باوجود وہ ایک پڑھا لکھا اور مہذب شخص تھا‘ دنیاجہاں سے کتابیں منگواتا تھا اور گھنٹوں ان کا مطالعہ کرتا تھا‘ بنجمن فرینکلن کو ایک دن معلوم ہوا اُس کی لائبریری میں وہ کتاب بھی موجود ہے جسے وہ برسوں سے تلاش کر رہا تھا‘فرینکلن نے فوراً اپنے مخالف کو خط لکھا اور اس میں عرض کیا‘ میں یہ کتاب پڑھنا چاہتا ہوں‘ مجھے معلوم ہوا ہے یہ صرف آپ کی لائبریری میں موجود ہے‘ کیا آپ یہ کتاب مجھے چند دنوں کے لیے عنایت کر سکتے ہیں‘ بنجمن فرینکلن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اس کے مخالف نے اگلے ہی دن وہ کتاب اسے بھجوا دی‘ فرینکلن نے کتاب پڑھی اور شکریے کے نوٹ کے ساتھ واپس کر دی‘ اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وہ مخالف جو فرینکلن کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا وہ اس کے ساتھ بیٹھا تھا اور دونوں پنسلونیا میں ’’ہیومین رائیٹس‘‘ پر گفتگو کر رہے تھے۔میں نے یہ واقعہ نامور مصنف عرفان جاوید کی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ میں پڑھا‘ یہ ایک دل چسپ واقعہ تھا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے ہم جن لوگوں کو مخالفتوں کی دیواروں کی وجہ سے بہت دور محسوس کرتے ہیں وہ دراصل ہمارے بہت قریب ہوتے ہیں بس ایک ٹیلی فون یا ایک خط کی بات ہوتی ہے اور وہ ساری دیواریں گرا کر ہمارے ساتھ آ بیٹھتے ہیں‘ ہم شاید یہ جانتے ہی نہیں ہیں مشکل وقت میں دشمن زیادہ اور دوست کم مدد کرتے ہیں‘ ہمارے زیادہ تر دوست دراصل اندر ہی اندر ہمارے مخالف ہو جاتے ہیں اورہم جب کسی مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر کا بغض باہر آ جاتا ہے اور وہ جی بھر کر ہم سے بدلہ لیتے ہیں جب کہ دشمن اگر اعلیٰ ظرف ہو تو ہماری پریشانی دیکھ کر اس کے دل میں ہمارے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور ہماری طرف سے ایک فون کال یا ایک پیغام ہمارے دشمن کو ہمارا دوست بنا دیتی ہے لہٰذا آپ اگر زندگی میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے بھی مانگتے رہیں اور آپ کے مخالف یا دشمن جب بھی مشکل وقت میں ہوں آپ انہیں خود کال کریں اور ان سے ہمدردی کا اظہار کریں‘
آپ کا یہ رویہ آپ کی مخالفت بھی کم کر دے گا اور آپ کا امیج بھی بہتر بنا دے گا‘ آپ پاکستانی سیاست کی مثال لے لیجیے‘ پاکستان کے زیادہ تر سیاست دان چودھری برادران کی عزت کرتے ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی وجہ ان کا مخالفوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ ہے‘ یہ دشمنوں اور مخالفوں کی مشکل وقت میں ہمیشہ مدد کرتے ہیں‘ مثلاًشریف فیملی 2000ء سے 2007ء تک جلاوطن رہی‘
چودھری برادران نے اس زمانے میں حمزہ شہباز کی مدد بھی کی اور جب میاں نواز شریف کے صاحب زادے حسن نواز جدہ میں بیمار ہوئے تو چودھری شجاعت نے جنرل پرویز مشرف سے بات کر کے علاج کے لیے انہیں لندن جانے کی اجازت لے کر دی ‘ اسی طرح جب جنرل ضیاء الحق کا طیارہ گرا اور وہ شہید ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق فیملی کے پاس گھر نہیں تھا‘ چودھری برادران نے ان کے لیے ویسٹریج میں اپنا گھر خالی کر دیا‘ جنرل ضیاء الحق کا خاندان اپنا گھر مکمل ہونے تک ان کے گھر میں رہا اور آپ یہ بھی یاد رکھیں ضیاء فیملی اس وقت چودھری برادران کو کچھ نہیں دے سکتی تھی کیوں کہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ تھے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور محترمہ جنرل ضیاء الحق کی تمام باقیات کی مخالف تھیں۔ آصف علی زرداری کے بارے میں بھی لوگوں کا خیال ہے یہ یاروں کے یار ہیں لیکن جب مخالفوں پر برا وقت آتا ہے اور یہ ان سے رابطہ کرتے ہیں تو یہ بھی کھل کر ان کی مدد کرتے ہیں لہٰذا ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت یا خاندان کو مشکل وقت میں آصف علی زرداری سے رابطہ کرتے دیر نہیں لگتی‘ یہ کبھی انکار نہیں کرتے جب کہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا خیال ہے شریف فیملی مشکل وقت میں اپنے مخالفوں کی مدد تو دور یہ دوستوں کا ساتھ بھی چھوڑ دیتی ہے اور پیچھے رہ گئے عمران خان تو ان کے بارے میں لوگوں کی رائے ہے یہ دوست اور دشمن دونوں کے لیے برابر ہوتے ہیں‘ ان کی ذات سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا ’’کسی کو بھی ‘‘۔
ہماری تاریخ بھی دشمنی میں اعلیٰ ظرفی کے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ سلطان صلاح الدین ایوبی اور مسیحی اتحادی فوج کے سپہ سالار رچرڈ شیردل کا واقعہ بہت مشہور ہے‘ جنگ کے فائنل رائونڈ میں رچرڈ شیردل کا گھوڑا مر گیا‘ سلطان ایوبی نے جنگ روک کر رچرڈ شیردل کو اپنا گھوڑا دیا اور جب وہ مکمل طور پر بحال ہو گیا تو اس پر پھر تلوار کا وار کیا‘ ہمارے پنجاب میں بھی روایت ہوتی تھی جب بیٹی یا بہن کی شادی ہوتی تھی تو مخالف سب سے پہلے اپنے مخالف کو اطلاع دیتا تھا اور مخالف یا دشمن اسے پیغام بھجواتا تھا آپ اطمینان سے شادی کریں‘ اس دوران ہماری طرف سے کوئی شرارت نہیں ہو گی اور وہ واقعی شادی کے دنوں میں دشمنی روک دیتا تھا‘ اسی طرح انتقال اور جنازے کے وقت بھی قتلوں کی دشمنی رک جاتی تھی‘یہ روایت بدقسمتی سے اب ختم ہو گئی ہے۔
برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور امریکی صدر رونلڈ ریگن کی کام یابی کی بڑی وجہ بھی ’’دشمنوں کو دوست بنائو پالیسی‘‘ تھی‘ ریگن اور تھیچر کو جب بھی کسی معاملے میں ماہرانہ رائے درکار ہوتی تھی تو یہ سب سے پہلے اپنے مخالفوں سے رابطہ کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے ہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن اس وقت میرے دائیں بائیں آپ سے بڑا ایکسپرٹ کوئی دوسرا نہیں لہٰذا مجھے آپ کی مدد چاہیے اور پھر ان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی ان کا دوست بن جاتا تھا‘ اس تکنیک کی وجہ سے یہ دونوں اپنے اپنے دور کے کام یاب ترین سیاست دان اور سربراہ مملکت رہے۔ مجھے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے‘ میاں نوازشریف 12اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء کے بعد10دسمبر 2000ء تک گرفتار رہے‘ اعتزاز احسن اس وقت چوٹی کے وکیل تھے لیکن یہ پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے‘ میاں نواز شریف نے انہیں اپنا کیس لینے کی درخواست کی‘ اعتراز احسن نے بے نظیر بھٹو سے پوچھا اور محترمہ نے شریف فیملی سے مخالفت کے باوجود اعتزاز احسن کو نواز شریف کا مقدمہ لڑنے کی اجازت دے دی اور یوں اعتراز احسن10 دسمبر2000ء کو جلاوطنی تک شریف فیملی کے وکیل رہے۔میں جب سیلف ہیلپ اور بزنس ٹریننگ کے شعبے میں آیا تو مجھے روزانہ درجنوں نئی کہانیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں‘مجھے پچھلے دنوں میرے ایک کلائنٹ نے دل چسپ بات بتائی‘ یہ وکیل ہیں اور لاء فرم کے مالک ہیں‘ یہ سات بھائی ہیں‘ تین وکیل ہیں‘ دو ڈاکٹر‘ ایک انجینئر اور ایک سول سرونٹ ہے‘ میں ان کے دفتر گیا تو دیکھا ان کی دیوار پر کسی بزرگ کی تصویر لگی ہے‘ بزرگ عام سا دیہاتی چہرہ تھا‘ لمبی لمبی مونچھیں اور گال پر زخم کا نشان‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ آپ کے والد ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہرگز نہیں‘ یہ ہمارے خاندانی دشمن کی تصویر ہے‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا‘ آپ نے پھر اسے دیوار پر کیوں لگا رکھا ہے؟
وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’یہ دشمن ہونے کے باوجود ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں‘ ہم اگر آج کام یاب ہیں تو اس میں سب سے بڑا ہاتھ ان کا تھا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’ہمارے خاندان کو اس شخص نے اتنا تنگ کیا کہ میرے والد نے ہم سب کو شہر بھجوایا اور سکولوں میں داخل کرا دیا یوں ہم پڑھ لکھ کر کام یاب ہو گئے لہٰذا ہم سب بھائیوں نے اپنے دفتروں کی دیوار پر ان کی تصویر لگا رکھی ہے جب کہ والد صاحب کی تصویر گھروں میں لگی ہے‘ اسی طرح خوشاب کی ایک خاتون نے بھی اپنی زندگی کا حیران کن واقعہ سنایا‘ اس کا کہنا تھا ’’گائوں میں ہماری خاندانی دشمنی تھی‘ میری منگنی ہوئی تو کسی نے میرے منگیتر پر حملہ کر دیا‘ وہ زخمی ہو گیا لیکن اس کی جان بچ گئی‘ ہمارا خیال تھا یہ ہمارے دشمنوں کی کارستانی ہے لیکن اس شام ہمارے شریک نے اپنا نائی میرے والد کے پاس بھجوا کر ہمیں تسلی دی بہو‘ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘ آپ کے داماد پر حملہ ہم نے نہیں کیا‘ آپ اپنا مجرم اپنے دائیں بائیں تلاش کریں‘ ہم آپ کو ضمانت دیتے ہیں جب تک آپ کی بیٹی کی رخصتی نہیں ہو جاتی ہماری طرف سے کسی قسم کی شرارت نہیں ہو گی‘ آپ کی بیٹی جب اپنے گھر چلی جائے گی تو ہم اپنی لڑائی دوبارہ شروع کر لیں گے‘‘ خاتون کا دعویٰ تھی ہمارا دشمن کریکٹر کا پکا نکلا‘ اس نے واقعی میری شادی تک کسی قسم کی شرارت نہیں کی جب کہ ہمیں یہ بھی پتا چل گیا میرے منگیتر پر حملہ اس کے کزن نے کیا تھا۔نفسیات دان اور بشریات کے ماہرین کا خیال ہے ہم دوستوں کے مقابلے میں اپنے دشمنوں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں ہم سے بھی زیادہ یاد رکھتے ہیں لہٰذا دوستوں کے ساتھ دشمنوں سے بھی رابطہ کر لیا کریں‘ مشکل میں ان سے بھی مدد مانگ لیا کریں‘ اس سے آپ کے مخالفوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور یہ بھی کوشش کریں آپ کا دشمن جب مشکل وقت میں ہو تو آپ آگے بڑھ کر اس کی مدد کریں‘ یہ مدد سلطان ایوبی کی طرح آپ کا قد بڑھا دے گی۔