نیدرلینڈ میں بلوچستان سے جاکر وہاں پناہ
لینے والے صحافی
نعیم خان پر ان پاکستانی احمدیوں کا حملہ جو پاکستان سے بھاگ کر نیدر لینڈ میں چھپ گئے ہیں ۔ تفصیلات بلوچ صحافی نعیم خان کی زبان یہ واقعہ ہفتے کی رات کو ہوا تھا ، میں معمولا اسپیس سنتا ہوں۔ اس سے پہلے میں کچن میں جاکر اسپیس سنتا تھا۔لیکن حالیہ دنوں میں ایک عرب فیملی کیمپ میں منتقل ہوا ہے جس کی وجہ میں کچن میں جاکر سننا مناسب نہیں سمجھا۔تو میں کمرے میں دھیمی آواز کے ساتھ اسپیس سن رہا تھا۔اس رات میں اپنے بیڈ کے اوپر بیٹھ کر اسپیس سن رہا تھا کہ طارق نامی روم میٹ نے سخت لہجے میں ایک بحث شروع کیا۔ حالانکہ میں اس طرح کےمباحثوں سے گریز کرتا ہوں ہمارے درمیان صرف کمرے کے حد تک ہی معاملات پر گفتگو ہوتی ہے۔
اس نے بات شروع کی اور کہا کہ وقاص گورایہ غدار ہے تو اتنے میں ایک دوسرا لڑکا سفیر نامی وہ بات کاٹ کر اس گفتگو میں شامل ہوا۔
سفیر نے کہا کہ وقاص گورایہ غدار ہے اگروہ میرے سامنے آئے تو میں اسے قتل بھی کرؤں گا۔بغیر پیسے کے-
اور جتنے بھی اس کے بقول غدار یا اینٹی پاکستان ہیں انھیں قتل ہونا چاہیے۔
میں نے کہا کے یہ پاکستان نہیں ہے نیڈرلنڈ ہے -
اس پر ان کا کہنا تھا کہ میرے آئی ایس آئی میں کنٹیکٹ ہیں ، میں نے جواب دیا کہ جو شخص وقاص کو قتل کرنے آیا تھا جب وہ ناکام ہوا تو اس نے کہا کہ میں قاتل نہیں فراڈیہ ہوں۔ تو جس سے وہ غصے میں آگیا۔ میں طارق کی طرف متوجہ ہوا اتنے میں سفیر نے ایک شیشے کا گلاس اٹھایا اور پوری شدت کے ساتھ میری طرف دے مارا ، کلاس مجھے نہیں لگا اور سر سے بچتے ہوئے بیڈ کے راڈ پر لگا اور شیشپہ شیشبہ ہوگیا -
پھر اس نے اٹھ کر کباٹ کھولا اور وہاں سے چھری نکالی اور میری طرف بڑھا۔اتنے میں طارق ہمارے درمیان آگیا۔
میں لینگے پاؤں ہونے کی وجہ
سے میرے پاؤں ذخمی ہوگیا-
لیکن طارق نے اس کے ہاتھ میں چھری لینے کے بجائے مجھے دیوار کی طرف دھکیلا۔اتنے میں دوسرے کمرے تک آواز پہنچی اور وہاں سے جواد نامی ایک افغان شہری سن کر بھاگم بھاگ ہمارے کمرے کے اندر داخل ہوا تو ہمارے کمرے میں موجود ایک تیسرے لڑکے ثمر نے اسے واپس باہر دھکا دے کر کمرہ بند کرنے کی ناکام کوشش کی مگر جواد اندر آگیا انھوں نے مجھے ان کے ہاتھ سے بچایا اور اپنے کمرے میں لے گیا ۔
بعد میں جب سیکورٹی آئی تو میں وہاں گیا تاکہ ان سے شکایت کرسکوں تو وہاں مجھ سے لڑنے والے بھی زخمی حالت میں موجود تھے۔جب میں نے جواد سے پوچھا کہ جب آپ نے مجھے کمرے سے نکالا کیا میرے ہاتھ میں کچھ تھا تو اس نے کہا نہیں ۔جب میں نے آپ کو کمرے سے نکالا تو اس وقت صرف آپ زخمی تھے۔
چونکہ میرے اوپر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا اس لیے میں دوسرے دن پولیس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ یہ مجھ پر دوسرا حملہ ہے اس سے پہلے بھی اس شخص نے اپریل 2021 کو میرا پیچھا کیا تھا اور باتھ روم میں حملہ آور ہوگیا تھا ، اس شخص نے بھی مجھے آئی ایس ائی کی دھمکی دی تھی ۔
اس وقت بھی میں نے ریفیوجیوں کے ادارے کو شکایت کرکے درخواست کی تھی اس کا موبائل چیک کیا جائے لیکن مجھے جواب دیا گیا کہ یہ ذاتی معاملہ ہے ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے۔
اس تازہ حملے ميں پولیس نے میری شکایت سنی اور واقعہ درج کیا پھر کوا کو فون کیا۔تو کوا نے بغیر کسی تفتیش کے مجھے پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے فیصلہ دے دیا -
جس پر پولیس نے ان کے کہنے پر مجھے گرفتار کرلیا میں تھانے میں تھا اس،وقت حیرت میں چلا گیا کہ حملہ مجھ پر ہوا اور قیدی بھی میں ہی بن گیا ۔ میں حیران ہوگیا۔
کیوں کہ
کوا نے یکطرفہ فیصلہ کیا تھا ۔ حالانکہ حملہ میرے اوپر ہوا تھا۔کوا نے سفیر کا بیان لیا جو مجھ پر چھری سے حملہ آور ہوا تھا اور طارق کو بطور گواہ لیا جس نے نفرت انگیز گفتگو کا آغاز کیا تھا اور کہا تھا وقاص گورایہ غدار ہے اور تیسرا گواہ ثمر کو بنایا گیا ، وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھا ، جس نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تاکہ مجھے باہر نہ نکالا جاسکے۔
جواد جوکہ اس معاملے میں غیرجانبدار ہے کوا نے اس کی گواہی نہیں لی نہ ہی اس جگہ موجود دیگر افراد سے پوچھ گچھ کی۔اس پر پولیس چاہتی تھی کہ مجھے حراست میں رکھے اس کے بقول میں نے اپنا جرم قبول کریں لیکن میں نے موقف اپنایا ہے اس معاملے کی تحقیقات حقیقت پر مبنی ہونی کیوں کہ وہ تینوں مجھ پر حملہ کرنے والے فریق ہیں اور تینوں ایک سوچ سے تعلق رکھتے ہیں تو حملہ بھی کیا پھر خود ہاتھ کے صفائی سے زخمی ہوئے اور پھر ایک دوسرے کے گواہ بن کر ایک دوسرے کو بچالئے متاثرین میں تھا اور مجرم بھی میں ٹھرا۔ میں نے تحقیقات کے لیے اپنا بیان رکارڈ کروایا تھا اور ایک رات دن تھانے میں گزاری اور اگلے دن مجھے رہا کردیا گیا۔جب میں واپس کیمپ آیا تو کوا کی طرف سے مجھے طلب کیا اور ایسے سخت لہجے میں بات کی جیسے میں کسی جیل میں ہوں۔میں نے ان سے بھی یہی کہا ہے کہ میں تحقیق چاہتا ہوں اگر تحقیق کے بعد میں غلط ثابت ہوا تو جو بھی سزا ملے میرے لیے قابل قبول ہوگا۔لیکن اس معاملے کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے۔
میری بات نہیں سنی جا رہی اور مجھے ڈیٹین سیںٹر میں ڈالا گیا ہے۔میں نے یہاں کے تمام متعلقہ اداروں کو لیٹر لکھا ہے کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور آئی این ٹی کے سامنے پیش ہوکر بھی میں نے یہی موقف دیا کہ اس کی مزید تحقیقات ہونی چاہیے کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے
اور جواد عینی شاہد ہے ان کی گواہی لی جائے تو دودھ کادودھ پانی کا پانی ہوگا ۔