ہر آزادی پسند کو فدائین کی طرز پر چلنا ہوگا تحریر سمیر جیئند بلوچ

کسی مہذب جمہوری ملک کا تاریخ ماضی حال اور مستقبل پر نظر دوڑائیں۔ آپ کو ان کا سیاسی اور عسکری کردار الگ الگ نظر آئیں گے۔ اور یہی جمہوریت کی حسن اور بالادستی ہے ۔ یعنی عام عوام کے طاقت کو پہچاننا اور قبول کرنا ہوگا، جو غیر مسلح( سیاسی ) ہیں وہی کردار ساز ہوتے ہیں۔اگر فرض کریں کوئی لیڈر عوامی امنگوں پر اپنی ذات خاندان کو ترجیح دینے کی کوشش میں مبتلا ہواہو تو عوام اسے ایک ہی ووٹ سے دھڑام سے نیچے لاکر اس کی حد کا تعین کرکے ثابت کرلے گا کہ طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر آپ کو اڑنا ہے تو عوامی طاقت کو قبول کرکے اڑان کی کوشش کریں اگر نہیں تو خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیں۔ جہاں پاکستان جیسے غیر جمہوری یا مڈل ایسٹ ارب ممالک جیسے خاندانی حکومتیں قائم ہوں وہاں فوجی جنریل اور رائیل خاندانوں کا راج ہوگا ۔ وہاں نہتے عوام کو حقیر ،نیچ، بلڈی سولین سمجھا جانے کا رواج عام ہوگا۔ ایک کلرک اتنا چمچہ گیری میں گرجائے گا کہ اپنی گھر میں کام کرنے والی یا والے آیا بابا بچی بچے کو حقیر سمجھ کر اپنے ساتھ کسی ہواٹل یا گھر میں کھانا کھلانا دور کی بات یہ تک برداشت نہیں کرے گا کہ وہ برابری میں بیٹھیں یا چلیں ۔ حتی کہ کہیں جانا ہو بھلے گاڑی کی پچھلی سیٹ خالی ہو ۔ مگر اسے گاڑی کے ڈکی میں بٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنے آپ کو غلطی سے اس کی برابر سمجھنے کی بھول نہ کرے۔ اگر اس طرح سوچ رکھنے کے عمل کو جانچا جائے تو دراصل وہ اپنے آقاء جنرل یا رائیل فیملی کو کاپی کر رہاہوتاہے ۔ کیوں کہ اس کے ساتھ روزانہ یہی رویہ اپنا جارہا ہوتا ہے۔ یہاں دونوں یا تینوں طبقہ ہائے کے رویوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے ایک میں انسان کو،بلا رنگ ونسل،مذہب حقیقی انسان سمجھا جاتاہے جبکہ دوسری میں وہ الفاظ جو پہلے ہی قلم بند ہوچکے ہیں وہی سمجھا جاتاہے ۔ اگر فوجی یا ڈکٹیٹر اور رائل خاندان یہ سمجھتے ہو ں کہ ہمارے ساتھ تجزیہ کرنے میں انصاف نہیں کیاگیاہے۔ وہ اپنے کردار پر نظر دوڑائیں کہ کیوں لوگ عام انسان اپنی زندگی اور نسل بچانے کیلے جمہوری ممالک یعنی مغربی ممالک کے ان ملکوں کا لاکھوں مصیبتیں جھیل کر رخ کرتے ہیں۔ یہاں بات واضح ہے اگر پاکستان،افغانستان اور مڈل ایسٹ ارب ممالک سے پیارے مومنین بھاگ کر وہاں (بقول انکے کافروں )پناہ لیکر مہاجرت کی زندگی گذارنے پر لاکھ شکر گذار اور، خوش ہیں ۔ تو اس کا مطلب وہاں انسانیت اور جاندار دونوں کی بقاء اور عزت محفوظ ہیں ۔ اور انکے جان کی حفاظت اور عزت نفس اتنا محفوظ اور بحال ہے کہ وہاں کے کسی علاقائی باشندہ کا ہو ۔ وہاں سیاست دان اور اعلی فوجی جنرل بھی رہتے ہیں مگر ہرایک اپنی ذمہداری تک محدود ہیں ۔ کوئی کسی کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتا،جنرل کو سیاست سے سروکار نہیں، سیاستدان کو جنگ کے اونچ نیچ سے غیر ضروری کام نہیں۔کسی کے پاس بندوق ہے تو وہ کسی پر رعب نہیں جماتا کسی کو بلڈی سولین نہیں کہتا نہی سمجھتا ،نہیں یہ سمجھتاہے کہ وہ نہتے ہیں لہذا اٹھاکر پاکستان کے فوج کی طرح لاپتہ کرکے ماورائے عدالت قتل کرو کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔وہاں جب وردی کا ٹائم ختم ہوا تو نکال دیا اور عام شہری کی طرح زندگی گذار نے میں مشغول ہوجاتے ہیں ، ریٹائرڈ ہونے کے بعد کسی کو پیزا شاپ، کسی اور ملک میں جزیرہ، یا سوئس اکاؤنٹ کھولنے کا خیال نہیں آتا ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری ممالک کے بندوق بردار بھی ہماری فدائین کی طرح زندگی گذار نے میں مشغول ہوجاتے ہیں کوئی نام شہرت زندگی میں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے خاموشی سے اپنا فرض نھباکر سماج کا حصہ بن جاتے ہیں یا جنگ دوران امر ہوجاتے ہیں۔ لہذا ہمارے ہر بلوچ جہد کار جو مسلح یا غیر مسلح ہیں ،لیڈر ہیں یا کارکن انھیں فدائین کی طرح گمنام رہ کر آزادی کے جنگ کو جیتنا ہوگا۔ اگر وہ فدائین کے طرز عمل کے بجائے پاکستانی غیر جمہوری اور ڈکٹیٹر فوج کی طرح بندوق کے زور پر سیاست کو یرغمال بناکر لیڈر اور ہیروازم کی بھنور میں پھنس جائیں گے تو آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔ مگر ان کی گمشدگی اور موت کے علاوہ پاکستانی چور جنریلوں کی طرح جگ ہنسائی مہذب سماج میں ضرور ہوگی۔ بہتر یہی ہے ہم بھی ایک بدنام پاکستانی بدتہذیب،ڈکٹیٹر،ہیروازم کے شکار قاتل فوجی اور جنرل کے سوچ رکھنے کے بجائے ایک آزادی پسند گمنام فدائین کی طرح رہ کر جہد آزادی کی آبیاری کریں تاکہ منزل نذدیک سے نذدیک تر ہو اور ہمارا نام بھی مستقبل میں روشن الفاظ میں یاد کیاجاسکے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post