بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں سیندک اور ریکوڈیک کے معاملے پر وفاقی حکومت کی جانب سے ایک غیر اعلانیہ فیصلے کے اندیشے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیشہ سے بلوچستان کے معدنیات کو بلوچ عوام کی مرضی و منشاء کے بغیر بیرونی کمپنیوں کے ساتھ سودا بازی کررہا ہے۔ گوادر پورٹ اور بلوچ ساحل سمندر کے معاملات ہو یا سیندک و ریکوڈک پروجیکٹس وفاقی حکومت انتہای بے دردی سے بیرونی کمپنیوں کے ساتھ سودا بازی میں مصروف ہے۔ ایک طرف بلوچستان کے قدرتی معدنیات کا بلوچ عوام کے مرضی و منشاء کے خلاف سودا بازی کی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا شنید میں آیا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ایک بہت بڑا سودا بازی ہونے جا رہا ہے، جس میں ہمیشہ کی طرح بلوچ عوام کی مرضی و منشاء شامل نہیں ہے۔ جبکہ بلوچستان میں معدنیات کی لوٹ گھسوٹ کے دوسرے منصوبوں کی طرح اس منصوبے کو بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ جبکہ ہم حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ جس میں بلوچ عوام کی معدنیات و ساحل کا سودا کیا جائے اس کے خلاف بلوچ عوام بھر پور مزاحمت کریگی۔ بلوچ اپنے معدنیاتی وسائل کی سودے بازی کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی۔ بلوچستان کے معدنیات بلوچ عوام کے ہیں اور ان کے حوالے سے فیصلے لینے کا اختیار بھی بلوچ عوام کا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس تمام صورتحال میں المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے سیاسی پارٹیاں بلوچستان کے معدنیات کی لوٹ گھسوٹ، بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں اور معاشی بدحالی پر ہمیشہ سے صرف لفاظیت کے حد تک محدود ہیں۔ اس صورتحال میں بلوچ عوام کی سیاسی بیداری نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر بلوچ عوام نے اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا اور اس سنگین صورتحال میں خاموش رہے تو جس طرح بلوچستان میں بلوچ عوام اور بلوچستان کے ساحل وسائل عدم تحفظ کے شکار ہیں، اس میں نہایت تیزی لائی جائیگی اور بلوچ اپنے سرزمین میں لاوارث کردیے جائے گے۔