اختر جان مینگل کے پارلیمنٹ جانے پر
تحریر۔ سمیر جیئندبلوچ
انٹر نیشنل پاکستان نواز ریڈیو برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن سمیت پاکستان کے درباری الیکٹرانک میڈیااور پرنٹ میڈیا نے سردار اختر مینگل کے بلوچستان نیشنل پار ٹی اور نیشنل پارٹی ،جس کے کرتا دھرتا ڈاکٹر مالک و حاصل خان بزنجو ہیں ،کی جانب سے پاکستانی قومی الیکشن میں حصہ لینے بارے اودھم مچا رکھی ہے کہ ان کی شرکت سے بلوچستان میں تحریک آزادی کی جاری جنگ کو دھچکا لگے گا ۔مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دوجماعتوں کے پاکستانی پارلیمنٹ کا ایک دفع اور حصہ بننے سے بلوچ آزادی کو کیوں کر دھچکا لگے گا؟؟یہ مجھ سمیت یقیناََ آزادی پسند بلوچوں کیلے حیرت کی بات ہے ۔کیونکہ ہم جب بلوچستان میں چلنے والے حالیہ جنگ آزادی کے مختصردورانیہ بارہ سال کی مدت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں بی این پی اور این پی کی جانب سے بلوچ تحریک آزادی بارے کوئی مثبت کار گزاری نظر نہیں آتی۔ البتہ انکی منفی سرگرمیاں جس سے بلوچ تحریک کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہوسینکڑوں مثالیں ملتی ہیں ۔ان کے منفی رویہ کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ آزادی پسند سرمچاروں کے ہاتھوں مارے جانے والے اکثر قومی دلالوں کا تعلق ان دوپارٹیوں سے رہا ہے ۔جس کا واضح ثبوت ماضی کے اخبارات میں انکے بیانات سے ملے گا کہ فلاں بلوچ آزادی پسندتنظیم وضاحت کرے کہ ہمارے ورکر یا رہنما کو کیوں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مذید یہ کہ کوئی سرکاری دلال جس کا باقاعدہ تعلق پاکستان کے ایجنسیوں سے ہو،مثلاََ ،نائی،دھوبی،خوانچہ فروش،غرض دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے ہو کی ہلاکت پرمذمتی بیان جاری کرنا ان کا معمول رہا ہے۔اس کے علاوہ ان دس بارہ سالوں میں ان دوجماعتوں نے بلوچ قوم کی غلامی کو طول دینے کی خاطر ایسے روڑے اٹکانے کے گر پاکستان کو سکھائے ہیں کہ حضرت ابلیس خود پریشان کہ یہ تو میرے بڑے بھائی پاکستان سے بھی دو قدم آگے نکلے۔اسی طرح مزکورہ جماعتوں نے پاکستان کے ساتھ مل کر ڈیتھ اسکوئڈز بھی بنائے تاکہ آزادی پسندوں کا راستہ روکے رکھیں۔تادم تحریر یہ ڈیتھ اسکوائڈز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پاکستان کے سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر آپریشنز میں حصہ لیکرالیکشن کیلئے راہ صاف کر رہے ہیں۔یہ تو ہوئی ان جماعتوں کی عملی کردار جہاں تک تھیوری کی بات ہے اس میں بھی انھوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔کبھی ان کے منہ سے یہ سننے کو ملاکہ پاکستان خود ٹوٹ رہا ہے ہم اپنا نام کیوں خراب کریں یا خواری برداشت کریں ،تو کبھی یہ بیان اخباروں کا زینت بنا کہ امریکہ پاکستان کو خود توڑ رہا ہے ۔ہمیں جنگ کرنے کی کیا ضرورت اسی طرح یہ بھی پروپیگنڈا ہوا میں چھوڑا گیا کہ آزادی کیلئے علم کی ضرورت ہے پہلے علم پھر آزادی؟بلوچ آزادی کے تحریک کو کمزور کرکے اس میں انتشار پیدا کرنے کیلئے طبقہ کو بھی ڈھال بنایا گیا کہ جی آزادی کے جنگ میں پٹیالہ کا بیٹا نہیں مرتا ۔الغرض ہر وہ عمل کیا گیا جس سے کہ پاکستان کو فائدہ اور بلوچ مقصد آزادی کو نقصان پہنچے۔
قارئین کرام یہ چند تلخ حقائق بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آج جو پاکستان نواز میڈیا میں تجزیے ون وے کرکے تجزیہ نگار اور رپورٹر حضرات چیخ چیخ کر حقائق کے بر خلاف یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بی این پی اور این پی کی پاکستان کے الیکشن میں شرکت سے بلوچستان میں پچھلے الیکشن کے مقابلے اس وقت ووٹ کا تناسب بڑھیگا۔تو یہ انکی غلط فہمی یا حقائق بیان کرنے سے راہ فرار کا ایک ڈھونگ ہے ۔وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھلی الیکشن میںیہی ہر دو جماعت نے ظاہری طور پر الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر پس پردہ اپنے نمائندے کھڑے کرکے پاکستانی فرشتوں کے زریعے انہیں جتوایا بھی تھا؟۔اور اب بھی یہ دونوں جماعتیں حسب سابق وہی کر رہے ہیں جو انکا آقا پاکستان اور اسکے کرتا دھرتا فوج کا فرمان ہو۔اسلام آباد جب چاہے انھیں بلوچ جہد کو کاونٹر کرنے کیلے استعمال کر سکتا ہے۔مقصد یہ
کہ ان نام نہاد بلوچ قوم پرستوں کا اس مختصر عرصے میں بلوچ تحریک کے ساتھ بلواستہ یا بلاواستہ کوئی حصہ داری نہیں رہاہے۔تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ان جماعتوں کے عام ورکرز کا بلوچستان کے آزادی کے جنگ میں نہ صرف حصہ ہے بلکہ اُنہوں نے اس عظیم راہ پر چل کر جام شہادت نوش کئے ہیں۔مزے کی بات یہ کہ ان جہد کاروں نے اپنے ذاتی حیثیت سے اور اپنے جماعتوں کے رضامندی کے بغیر اور جماعت کے لیڈروں کے آشیر باد لئے بغیر ان سے چوری چھپے تحریک کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔اگر انکے پارٹی لیڈر اب بھی یہ کہیں کہ جی ہمارے فلاں ورکر یا رہنما ء نے آزادی کے راہ پر چل کر پارٹی کیلئے قربانی دی تو یہ ان کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس جہد کار نے بلوچ سرزمین یعنی اپنے دھرتی ماتا کی آزادی کی خاطر اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا نہ کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور پاکستان کی آئین کی پاسداری کیلئے ؟لہذا یہ شہید قومی شہید کہلائیں گے نہ کہ پیٹ پرست بی این پی اور نیشنل پارٹی کے شہید ۔جن کا نام بڑی ڈیٹائی سے اخترجان اور ڈاکٹر مالک لیکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
جہد آجوئی کے اس مختصر اور فیصلہ کن جنگ میں میری مختلف بلوچ جہدکاروں اور آزادی پسند بلوچستان کے فرزندوں سے بات چیت ہوئی ہے مگر آج تک کسی جہد کار کے منہ سے یہ نہ سنا کہ مجھے سردار اختر جان یا ڈاکٹر مالک اور اس کے ٹولہ کے کسی رہنماء نے جنگ کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ہاں اس حدتک انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا تعلق اس بدبخت جماعت سے ہے مگر میں انکے اس آئین کو یا فیصلوں کو نہیں مانتا جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ اور الیکشن میں جانے کی بات ہو وغیرہ وغیرہ۔
ان چند حقائق کی روشنی میں بلوچ جہد کار یا انکے ہمدرد یقیناََ پاکستان اور اس کے درباری میڈیا کے پروپیگنڈے میں نہیں آئیں گے مگر میرا عام بلوچ یا بلوچستان کے ان فرزندوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی قومیت یا مذہب سے ہو۔ مگر وہ اس سرزمین کے فرزند ہیں انھیں اپنا فرض اس سرزمین کی آزادی کیلئے پورا کرنا ہوگا۔یہ فیصلہ بلوچستان کے ہر فرزند کوکرنا ہوگا کہ میری دھرتی ماں کو کس طرح دشمن کے قبضے سے چھٹکارا دلانا ہے ووٹ سے یا اس کے بائیکاٹ سے ؟
یہ کالم اپریل 2013 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ماہانہ مجلہ* آزاد *میں شائع ہوا ہے۔ ہم شکریہ کے ساتھ اسے پھر قارئین کے دلچسپی کی خاطر شائع کر رہے ہیں
؟