بلوچ سرمچاروں کو مزید تربیت کی ضرورت ہے
تحریر سمیر جیئند بلوچ
آج کی سائنسی دور میں دنیا کے ہرکامیاب شے پر نظر دوڑائی جائے وہ پریکٹیکل یا تربیت کے ہی مرہون منت نظر آئے گی۔جہاں جہاں کامیاب یا نئی چیز ملے اس کے پیچھے یہی دونوں چیزوں کا ہونا از حد ضروری ہے ۔پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عمل کے لئے یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔کامیاب لوگ اور ملک انہی کو اپنا کر آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔جبکہ ان سے منہ موڑ نے والے پچتاوے کے ساتھ پسماندہ رہ کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔آئیے ہم مقبوضہ بلوچستان کے موجودہ جنگ آزادی میں بلوچ سرمچاروں کی جنگی حکمت عملی اور تریت کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ موجودہ زمانے میں اس سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔تاہم اس سے پہلے کچھ ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قبضہ کے بعد ان پینسٹھ سالوں میں چار مسلح جنگیں( انکے ساتھ) لڑیں۔کیا کھویا؟ کیا پایا؟۔(تاہم یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے وجود کا احساس ضرور دیا کہ ہم بھی ایک آزادقوم ہیں)تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچوں نے پنجابی کے خلاف چار جنگین تو لڑیں مگر وہ جنگ عدم تربیت اور منظم سیاسی تنظیم نہ ہونے کے باعث وقت سے پہلے جمود کا شکار ہوئے۔مثلاََ تربیت نہ ہونے کے سبب گوریلا جنگ کے برعکس وہ دشمن فورسز کے ساتھ مورچزن ہوکر دوبدو جنگ کا حصہ بن کر محازوں پر لڑتے رہے۔ جبکہ دوسرا ہم اور نقصاندہ وجہ اس کو بھی گردانا جا رہا ہے کہ وہ ببانگ دھل اور اللاعلان جنگ کا حصہ بن کر اپنے اصل شناخت کے ساتھ دشمن کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں یہ خیال کئے بغیر کہ ہم گوریلا سپاہی ہیں نہ کہ ریگولر فوج ۔حالانکہ گوریلا اصول کے مطابق جنگ لڑا جاتا تو نقصان کم سے کم اٹھانا پڑتا۔(میرے خیال میں یہی وجہ تھاکہ 1977 ستہتر کے جنگ میں بقول بابو شیر محمد مری :ہماری بچیاں اور خواتین لاہور کی منڈیو میں پنجابی حیوانوں کی طرح بیچتے تھے۔جن میں سے کچھ بچیاں جنگ کے بعد میں نے واپس خریدے)اس کے علاوہ بلوچ سرفروش باقاعدہ کسی تنظیم کے پابند یا دائرے میں نہ تھے جبکہ انکی جہد مخصوص قبائلی لوگوں کے گرد کھومتی تھی۔اور یہی وجہ تھاکہ کوئی قبائلی رہنما جنگ سے تھک گیا تو اپنے قبیلہ کے لوگوں کو پہاڑوں سے اتارااور وہ اس موقع کو غنیمت جان کر اتر گئے ۔اس حوالے سے ایک سرمچار کا واقعہ یاد آگیاکہتے ہیں کہ جنگ کے دوران رات کو سفر کے دوران کوئی بلوچ سرفروش گرپڑا تو اس دوران کچھ نا زیبا الفاظ اپنے رہنما کے بارے کستے ہوئے کہاکہ میں کتنا پاگل ہوں ایسا محسوس کر رہاہوں کہ پنجابی نے میری حکومت گرادی ہے؛اس دوران ان بلوچ فرزندوں کی قربانیاں سر آنکھوں پر مگر ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ا نکی اکثریت اپنے مقصد سے اتنے واقف نہ تھے اور غلامی سے بے خبر ہاں وہ ایک چیز جانتے تھے کہ ہم فلاں سردار کیلئے لڑ رہے ہیں۔یقیناًہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے مقصد آزادی سے اتنا شناسا نہ تھے ایک لمحے کیلئے اس کی ذمہ داری ہم اس وقت کے رہنماوں پر ڈالتے ہیں کہ وہ عوام کو آزادی کے بارے باخبر رکھنے میں ناکام رہے۔کوشش نہ کی اگر کوشش کی تو عوام سمجھ نہ سکھے وغیرہ وغیرہ۔آج اگر ہم موجودہ حالات میں اپنے بلوچ سرمچاروں کی کچھ غیر ذمہ دارانہ حرکات دیکھتے ہیں تو انتہائی گھٹن محسوس ہوتا ہے کہ وہ کیوں آج کے اس تربیت یافتہ دور میں بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے دشمن کیلئے آسان راہیں مہیا کرتے ہیں ۔َ دشمن انہیں آسانی کے ساتھ راہ سے ہٹاکر مذید انکے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کیلئے اپنے کرایہ کے ٹٹوں کو چھوٹ دیتی ہے۔اس عمل سے ظاہر ہے دشمن کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اپنے ہمدردوں میں مایوسی پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس نقصان کیلئے ہم کس کو ذمہ دار سمجھیں؟ اپنے آپ کو؟،آزادی پسند جماعتوں کو؟،یا مسلح تنظیموں کو جن کی زیر نگرانی ہم جنگی ہنر سیکھتے ہیں؟ ۔یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں اور ان سوالات کے ممکنہ جوابات کیلئے ہمارے سرمچاروں انکے قیادت اور آزادی پسند سیاسی ورکروں کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگا کہ کہاں اور کس وقت ہم نے اپنے پارٹی اصول چھوڑدئیے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنا ہوگاکہ میں بحیثیت ایک آزادی پسند سرمچار کس مقصد کیلئے جنگی یا سیاسی تربیت لے رہا ہوں؟۔میری ذات پر کیا ذمہ داری عاید ہوتی ہے؟ کہ میں اس قومی تربیت کا لاج رکھوں اور روزانہ اپنے معمولات زندگی کا جائزہ لوں کہ میں نے آیا اپنا دن کیسے گزار رہاہوں اور کہاں میں نے غلطی کی اور کہاں اچھے کام سر انجام دیئے۔اگر ہر سرمچار پچاس فیصد اپنے غلطیوں کا ازالہ کرے تو یقناََ قومی تحریک کم نقصان میں اپنے حقیقی احداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔جس طرح ہر سرمچار کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں اس سے دوگنا ان میںآزادی پسند تنظیموں وآزادی پسندوں پارٹیوں پرزمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعداد بڑھانے کے بجائے ہر سرمچار وسیاسی ورکر کا انتخاب کرنے میں جلد بازی نہ کریں۔ماناکہ آزادی پسند مسلح تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں مختلف الخیال (ہر طبقہ ،فرقہ،مذہب ،کے علاوہ قبائلی ،سیاسی ،شوقیہ ،خاندانی ،ذاتی تعلق کے )لوگ موجود ہیں۔ تاہم ان تمام کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک ہی سوچ یعنی نظریہ سے لیس کرکے قومی فوج بنانا ہوگا۔اگر اس جانب نہ سوچاگیا اور دیر لگائی گئی تو گھاٹے کا سودا ہوگا ہر کوئی یہ سمجھے گاکہ میں تو رضاکار ہوں اپنے حصہ کا کام کرکے اپنا راہ لوں ۔قومی سوچ پر برے اثرات مرتب ہونے کا ڈر منڈلاتا رہے گا۔جیساکہ میں نے ماضی کے چار جنگوں میں حصہ لینے والے کچھ بلوچ سرفروشوں کی ذاتی کمزوریاں بیان کی کہ شاید ہم کہتے ہیں کہ تربیت کے فقدان کے سبب ایساہواتھا ۔مگر آج انتہائی زیرک سیاسی قائدین کے ہوتے ہوئے جنگی ہنر اور تربیت کے باوجود ایسے ایسے قومی راض افشاں کرنے ،کسی کاروائی میں دشمن کے ساتھ اپنے ہمدردوں کو نقصان پہنچانے ،بلوچ کے نام پر چندہ کے باز گشت ،اور منشیات پینے اور پلانے کی آواز مختلف اوقات میں سننے کوملتی ہے یا چوری چکاری کے واقیات وہ بھی منظر عام پر آتی ہیں جوکہ حیرت اور افسوس ناک عمل ہیں۔ ہمارے مسلح تنظیموں کا کام ہے کہ وہ ایسے کالے بھیڑیوں کو تلاش کرکے اپنے صفوں سے غائب کریں جیساکہ دشمن اور قومی غداروں کے ساتھ ہورہاہے میرا ذاتی رائے ہوگا کہ ان کے ساتھ اس سے بھی برتر سلوک رکھا جائے تو عین انصاف ہی ہوگا۔دوسری ذمہداری بھی ان تنظیموں پر عائد ہوگی کہ وہ ہر آزادی پسند سرمچار کوا سلحہ کے ساتھ ساتھ ذہنی بارود سے بھی لیس کرکے جنگی میدان میں چھوڑ دیں جب تک علم ،ہنر ،شعور،اور فکری پختگی کسی میں نہ آئے اس وقت تک اس سرمچار کو رزرو رکھا جائے اور قومی ذمہ داری سے دور رکھاجائے وہ اس لئے بھی کہ اس سے نہ صرف وہ ذائع ہوگا بلکہ قومی تحریک کیلئے بھی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔الغرض بلوچ سرمچاراور انکے ہمدردوں کی قومی ذمہ دار ی بنتی ہے کہ وہ ماضی کا جائزہ لیکر آگے اپنے منزل کا تعین کریں۔دیکھیں کہ کہاں پھول اور کانٹے ہیں کانٹوں سے اپنے آپ کو بچاکر آگے قدم بڑھائیں۔اور یہ بھی ہر سرمچار کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اورعوام کے ہر چیز کو کو نقصان پہنچائے بغیراپنے اصل اہداف( یعنی دشمن کو زیر کریں)حاصل کریں
یہ کالم فروری 2013 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مجلہ *آزاد
* میں شائع ہوچکاہے
بلوچستان ٹوڈے اردو شکریہ کے ساتھ شائع کررہاہے
۔