شال ( پ ر)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض پاکستانی ریاست کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ افراد کو مختلف شکل میں نشانہ بناتی رہی ہے۔ پروفیسر عثمان قاضی کو اغوا کرنا، اس سے جبری بیان لینا، اور انہیں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی سرگرمیوں کے ساتھ جوڑنا پاکستان کی ان پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ عوام کے تمام طبقوں کو نشانہ بنانا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ پروفیسر عثمان قاضی وہ پہلا شخص نہیں جسے قابض پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے بلوچ قوم کو تعلیم دینے کے غرض سے نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس سے پہلے صباء دشتیاری کو اپنے پراکسیز کے ذریعے شہید کیا گیا، شہید پروفیسر رازق، زاہد آسکانی، ماسٹر بیت اللہ، سمیت کئی تعلیم یافتہ بلوچ پروفیسرز اور استادوں کو فوج نشانہ بناکر شہید کر چکی ہے جبکہ اب قابض فوج کے ایجنسیوں نے ایک الگ وطیرہ اپنا لیا ہے جس کے ذریعے سماج کے مہذب اور تعلیم یافتہ افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر ان سے جبری طور پر بیان لیے جاتے ہیں، اور انہی جبری بیانات کو لیکر میڈیا میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، ریاست اب ایک پروپگنڈا مشینری میں بدل چکی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ قوم اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کا ہر فرد، بچہ ہو یا بزرگ سب قابض پاکستانی ریاست سے آزادی چاہتے ہیں۔ پاکستان ایک قابض ریاست ہے، جو بلوچ قوم پر جبر کے ذریعے اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہے۔ ریاست پاکستان بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ظلم و بربریت کا ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔ وہ بلوچ قومی تحریک سے اس حد تک خوفزدہ ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا، جبری گمشدگیاں، قتل عام اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں روز کا معمول بن چکا ہے۔ مگر حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا، خاص طور پر مغربی طاقتیں، ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ دنیا، بالخصوص امریکہ پاکستان کو سزا دینے کے بجائے اس کے ساتھ تجارت کی بات کر رہا ہے۔ یہ عمل خود ان کے اپنے انسانی حقوق اور آزادی کے نعروں کی نفی ہے۔
مزید کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں امریکہ کا پاکستان سے تجارتی معاہدے کی بات کرنا ایک افسوسناک مثال ہے۔ ہم دنیا سے، خاص طور پر امریکہ اور مغربی ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائیں۔ پاکستان کو سخت سزا دی جائے، اور بلوچ قومی تحریک کو، جو اس خطے میں آزادی، امن اور دہشتگردی سے نجات کا واحد راستہ ہے، جائز تسلیم کیا جائے۔ قابض پاکستان ایک غیرمستقل اور ناقابل بھروسہ ریاست ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ بلوچ قوم کی تحریک آزادی کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرے، کیونکہ یہی تحریک اس خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پروفیسر عثمان قاضی کا کیس الگ نہیں بلکہ قابض پاکستانی فوج کے انہی ہتکھنڈوں کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کے شعور و فکر، تعلیم یافتہ افراد کو نشانہ بنانا ہے تاکہ بلوچ قوم شعوری اور تعلیمی لحاظ سے پیچھے رہے۔ فوج اس وقت بلوچستان میں خوف کا ایک فضا قائم رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ سماج کے ایسے افراد کو نشانہ بنا رہی ہے جو سب سے زیادہ باعلم ہیں، بلخصوص طلباء کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانا ان پالیسیوں کا اہم ترین حصہ ہے، حالیہ دنوں بلوچستان بھر سے سینکڑوں طلباء کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے ڈائریکٹر جنگیز بلوچ، ایم فل اسکالر غنی بلوچ، ذکریہ بلوچ اور دیگر نوجوان شامل ہیں جنہیں ان کی تعلیم دوستی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ قوم کو اس حقیقت کو سمجھ کر قابض دشمن کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا چاہیے، جب تک بلوچ سرزمین پر قابض پاکستان کا قبضہ رہے گا، ایسی بدترین جبر و وحشت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہیں گے۔