خضدار ( پریس ریلیز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی ) کے ترجمان نے کہا ہے کہ خضدار سے4 نوجوانوں کی جبری گمشدگی و خواتین پر فائرنگ ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ تین روز قبل حب چوکی سے خضدار آنے والی ایک ویگن کو پیر عمر کے مقام پر ایف سی اہلکاروں نے روک کر اغوا کیا۔ خواتین اور بچوں کو زبردستی گاڑی سے اتار دیا گیا جبکہ مرد مسافروں
سراج ولد بشیر احمد، عمران ولد بشیر احمد، زبیر ولد ممتاز احمد اور
متیاز ولد ممتاز احمد کو گاڑی سمیت ریاستی اہلکار اپنے ساتھ لے گئے۔ بے یار و مددگار خواتین نے گھنٹوں تک سڑک پر انتظار کے بعد عام لوگوں سے مدد لے کر خضدار شہر کا رخ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اگلے روز ان ہی خواتین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے خضدار کے زاوہ کے مقام پر احتجاج کیا۔ مگر جواب میں ایک بار پھر ایف سی کے اہلکاروں نے وہاں پہنچ کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ لواحقین نے دو دن تک سڑک پر دھرنا دے کر اپنے پیاروں کی رہائی کا مطالبہ کیا، لیکن ریاست نے ان کی آواز سننے کے بجائے مزید ان خواتین کو ہراساں کیا۔
ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ تقریباً تمام اضلاع میں انٹرنیٹ مسلسل بند ہے جبکہ خضدار میں گزشتہ چھ ماہ سے مکمل بلیک آؤٹ ہے، جس کی وجہ سے ایسے واقعات کی اطلاع اور آواز باہر پہنچنے ہی نہیں دی جاتی۔
انہوں نے مزید کہا ہےکہ یہ تمام واقعات اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستانی ریاست نے بلوچستان کو ایک بڑے قیدخانے میں تبدیل کیا ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جارہا ہے اور انسانی حقوق کو کچلنا روزمرہ معمول بنا دیا گیا ہے اور بلوچ نسل کشی کے ان واقعات کو چھپانے کے لیے پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کو بند رکھا گیا ہے۔
بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے پیاروں کے جبری گمشدگی اور ماروائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف کسی بھی صورت خاموش نہ رہے، ہماری خاموشی اس ظالم و جابر ریاست کو مزید ظلم و جبر کرنے کے لئے توانائی فراہم کرے گی۔
 
