بانو گل اور احسان کے قتل میں ملوث سردار کی گرفتاری پر بوتل میں بند سردار نکل پڑے ۔ تحریر ۔ سمیر جیئند بلوچ۔

 


کوئٹہ چیف آف بیرک نواب محمد خان شاہوانی، چیف آف بنگلزئی سردار کمال خان بنگلزئی، چیف آف محمد سردار محمد عظیم جان محمد شهی سردار عاصم جان سرپرہ ، سردارزادہ میر جاوید عزیز لہڑی نے سردار شیر باز خان ساتکزئی کے گھر پر چھاپے چادر و چار دیوار کے تقدس کی پامالی اور انہیں گرفتار کر کے تھانے منتقل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیگاری میں پیش آنیوالے واقعہ کو جواز بنا کر قبیلے کے سربراہ کے گھر پر چھاپہ مارنا اور انہیں گرفتار کر کے تھانے منتقل کرنا کسی صورت درست عمل نہیں ہے۔

حکومت فریقین کو گرفتار کریں جو اس عمل میں ملوث ہیں نہ کہ قبیلے کے ایک فریق کی کارستانی کو جواز بنا کر قبیلہ کے سربراہ کے گھر پر چھاپہ مارا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ کا یہ عمل کسی صورت درست نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سردار شیر باز خان ساتکزئی ان کے خاندان کے دیگر افراد کی غیر قانونی گرفتاری گھر پر چھاپے اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کے خلاف سراوان کے سرداران جلد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

اپنے مشترکہ بیان میں  انہوں نے کہا ہےکہ پولیس نے سردار شیر باز ساتکزئی گھری کے گھر پر چھاپہ مار کر چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے انہیں ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا ہے۔ جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔ سردار شیر باز ساتکزئی اپنے قبیلے کے سربراہ ہے انہیں اس طرح سے گرفتار کر کے تھانے منتقل کرنے کا عمل انتشار پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
یاد رہے اس بیان میں کہیں بھی بانو گل اور اسکے نہتے شوہر کی وحشیانہ قتل کی کوئی مذمت نہیں کی گئی ہے اور نہیں اس بارے کسی شرمندگی کا اظہار کیاگیا ہے ۔

یہ بیان غیرت مندوں کے غیرت مند سرداران کافی عرصہ سے بوتل میں بند رہنے کے بعد بوتل سے نکل کر جاری کرکے واپس بوتل میں بند ہوگئے ہیں  ، سرکاری کاسہ لیس سرداروں   نے معصوم بانو گل اور احسان کے قتل میں ملوث  ملزم سردار کیلے یہ انوکھا بیان داغ دیا ہے ، حالاں کہ مزکورہ سرداران کی خاموشی سے ،محسوس ہورہاتھا کہ شاید وہ بے چارے اس جہاں میں نہیں رہے مگر یہاں بیان دیکر وہ شکوک دور کردیئے گئے ہیں کہ ہم زندہ اور اسی جہاں میں بوٹ والوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔

یہاں اس بیان سے مائنڈ سیٹ دیکھیں ،مذکورہ تمام سرداروں کی غیرت اس وقت جاگی جب ان کا ایک پیالا بھائی ایک وحشیانہ قتل کے  معملے میں ملزم ٹھرایا گیا ہے ۔گرفتاری اچھی بات ہے بری یہ فیصلہ قارئین کو کرنا ہے ،لیکن مذکورہ قبائلی رہنماوں سرداران سے  گزارش کے ساتھ سوال ہے کہ جب نہتی بلوچ بہادر لڑکی کو وحشیانہ طریقے سے مرد سمیت بے دردی سے مارا گیا اس وقت آپ لوگوں نے نہ مذمتی بیان جاری کیا نہ ہی آج اس واقعہ کو درندگی سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ قوم اور بلوچستان بدنام سبک ہورہا ہے،بلوچ کیلے وحشی کے الفاظ چنے جارہے ہیں  ۔

یقینا ہم آپ لوگوں کی مجبوریاں سمجھ سکتے ہیں کہ اس حمام میں سارے سردار میر معتبر نام نہاد ٹکری سب ننگے ہیں ،بلوچی روایات ننگ ناموس کے نام پر کئی بانو اور احسانوں  کو وحشیانہ طریقے سے مروانے کے باعث بن گئے ہونگے ،اگر بات بلوچ ننگ ناموس  غیرت کی ہے تو بلوچ بیٹیاں ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر کی شکل میں اغیار کی  قید ی ہیں ،وہ  انکے عقوبت خانوں میں نہ کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہیں ،آج بھی بلوچستان کے علاقہ نوشکی سمیت دیگر علاقوں میں فورسز خواتین بچوں پر بم برسا کر ان کی گھر جلا رہے ہیں ،اسلام آباد میں بلوچ ماؤں کی پریس کلب میں داخلہ ،سڑکوں پر چلنے ،فلیٹوں میں رہائش پر پابندی لگائی گئی ہے،  پینے کی پانی تک کو بند کیاگیا ہے ، یہ بلوچی روایات  غیرت یاد ایک لمحہ کیلے یاد  نہیں آتیں۔کم سے کم  ایک دو جملے کی مذمتی بیان نہ چاہتے ہوئے چھوڑ دیں  ؟ ،دور نہ جائیں بلوچ خواتین کی رہائی کیلے لکپاس کے مقام پر ایک بلوچ سردار اس کی پارٹی دھرنا دیکر بیٹھی رہے ، مگر بوتل میں بند  کسی سردار  کو وہاں جانے اور بیان دینے کا  زحمت گوارا نہیں ہوا ،الٹا ان پر ہر طرف سے تنقید کا بوچھاڑ کردیاگیا ،اگر ان کا طریقہ غلط تھا تو آپ صحیح  طریقے سے اپنی ماں بیٹیوں کی رہائی کیلے نکلتے کم سے کم نہ چاہتے ہوئے بیان دیتے مگر کچھ نہیں ہوا کیوں کہ کینٹ میں بیٹھا باپ ناراض ہورہاتھا اور سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

پیٹو سرداروں نام نہاد سیاستدانوں ،سماجی تنظیموں کو مشورہ ہے کہ  لوگوں اور عوام کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل بند کریں ، ا ب چاہئے کوئی بھی پھاندے خان ہو جو بھی دعوی کرے ان کے اعمال عوام کے سامنے ایک سیکنڈ میں پہنچ جاتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہیں۔

سب کو پتا ہے کہ کیا وہ جو بلوچ عوام کے نام پر بھیک سے سہی جمع کر رہے ہیں وطن اور عوام کو فائدہ پہنچا رہےہیں  یا اپنی جیبیں خود کی بھر تےہیں ۔

اب بھی وقت ہے سردار میر معتبر ،سیاسی غیر سیاسی ،سماجی پارٹی تنظیمیں، حتی کہ آزادی پسند جماعتوں مسلح غیر مسلح ہیں  کی ذمہداری ہے کہ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھائیں ، کیوں کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا سکڑ کر ایک کمرہ میں بند ہوچکا ہے ،اچھی بری کرامات دکھنے میں ہر کسی کو دیر نہیں لگتی ،سب کو بیک وقت سب کچھ دکھ جاتا ہے  ،کون بلوچ بلوچستان کے وسائل سے پیار کرتا ہے اور کون کون عوام کو انسان سمجھ کر ساتھ لیکر چلتا ہے ۔
کون بانواور احسان کے قتل پر شرمندہ ہیں اور کون کون بے شرم بن کر بیٹھ گئے ہیں انھیں قاتل کو قاتل کہنے کی جرات نہیں ہے ۔
یہاں روزانہ بانو احسان نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کئے جارہے ہیں ۔
ہر محلے میں ایک قاتل عبدالرحمان کھیتران جیسا الو آنکھوں والا بیٹھا ہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post