لکپاس دھرنا ظلم کے خلاف بلوچستان کے ہر حصے میں جائیں گے۔ سردار اخترجان مینگل

 


مستونگ: (نامہ نگار) سردار اخترجان مینگل نے مستونگ لکپاس کے مقام پر 20 دنوں سے جاری دھرنے کو ختم کرکے احتجاجی مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائد سردار اخترجان مینگل نے لکپاس دھرنے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج دھرنے کا 20 واں دن ہے، مستونگ کے تمام لوگوں کا بہت مشکور ہوں کہ جنہوں نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے چاہے رہائش ہو یا میزبانی ہو اس سے بڑھ کر خدمت کی ہے اور ان کی یہ خدمت بلوچستان کے آنے والے دنوں کی جو تاریخ میں لکھی جائے گی ان کا نام بھی سر فہرست ہوگا۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی حکومت نے ہمیں کوئٹہ میں پرامن طور پر داخل ہونے نہیں دیا، اب بلوچستان کی بیٹیوں اور لاپتہ افراد کے لیے بی این پی بلوچستان کے ہر ضلع اور ہر کونے میں اپنا احتجاج کرے گی وہ ہمیں ایک جگہ محدود کرنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن اب ہم ظلم کے خلاف بلوچستان کے ہر حصے میں جائیں گے۔ سردار اخترجان مینگل نے واضح کیا کہ اگرچہ دھرنا اس وقت اختتام پذیر ہو چکا ہے، تاہم احتجاجی سلسلہ بدستور جاری رہے گا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر خواتین کی رہائی تحریک احتجاجی مرحلے کو دوسری شکل دے دی گئی ہے احتجاجی تحریکیں مختلف تاریخوں میں جاری رہے گی اور پہلے 18 اپریل کو مستونگ میں، 20 اپریل کو قلات میں، 24 اپریل کو خضدار میں، 26 اپریل کو پنجگور میں، 28 اپریل کو تربت میں، 30 اپریل کو گوادر میں، 2 مئی کو نوشکی میں، 4 مئی کو دالبندین میں، 6 مئی کو خاران میں، 8 مئی کو حب میں، 10 مئی کو سبی میں اور 12 مئی کو نصیر آباد میں ریلی نکالی جائیگی، جوکہ اپنے جمہوری مطالبات کی منظوری تک قائم رہے گا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے پورا بلوچستان متاثر ہواحکومت کی جانب سےہمارے لانگ مارچ کے دوران  تمام راستے بند کرنا کیا یہ عوامی حکومت ہے ہمارے پاس وفود آئے اور انہوں نے بےبسی کا اظہار کیا انہوں نے کہاکہ ہم نے اے پی سی بلایا، اے پی سی نے ہمیں مشورے دیے کہ دھرنا ختم کریں ہم احتجاجی تحریک میں ساتھ دینگے۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کی ماوراء آئین و ماوراء قانون گرفتاریوں کے خلاف لانگ مارچ اعلان کیا اور 28 مارچ کو ہمارے لانگ مارچ پہنچنے پر لکپاس بند کیا دونوں اطراف سے ہمارے کارکنوں اور لوگوں روکا، شیلنگ کی گئی، گرفتار کیا گیا تمام اداروں نے راستوں پر رکاوٹیں کڑی کی، جس پر ہم نے مجبور اس چٹیل پرخطر میدان  میں دھرنا دیا۔ دھرنا میں تمام قبائیلی معتبرین سیاسی جماعتوں کے رہنماوں مستونگ پریس کلب کے صحافیوں مستونگ کے باشعور مائیں بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیکہ انہوں نے بھرپور ساتھ دیا ہمارے ساتھ دھرنا میں شرکت اور تعاون کیا 20 دنوں کا بیابان و خطرات  میں دھرنے ساتھ رہے۔ عوام کی جم غفیر نے شرکت کیا ہمارا پہلے بھی جمہوری انداز میں احتجاج تھا انہوں نے کہاکہ حکومت نے پوری طاقت سے ہمارا راستہ روکا خودکش بمبار بھیجا مگر ناکام رہے،  یہاں دھرنے کی مقام کا حکومت اور ادارے خود خطرات کا اعتراف کرتے رہے۔ پریس کانفرنس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صوبائی ضلعی رہنماؤں قبائلی عمائدین نواب محمد خان شاہوانی، سردار شاہ زمان خان علیزئی سمیت سرداروں سمیت اہم  شخصیات موجود تھے۔ سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ حکومت ہمیں کوئٹہ جانے اور احتجاج کیلئے اجازت نہیں دینگے تو اب ہمارا احتجاج دوسری شکل میں ہوگا احتجاج میں بلوچستان بھر میں احتجاجی ریلیاں منعقد ہوگی۔ ہم نے دھرنے میں اپنے عوامی مطالبات کا لوہا منوانے کی کوشش کیا مگر فارم 47 کی حکومت بنانے والے خفیہ ادارے کبھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے مسائل حل اور ختم ہوجائے، بلوچستان کی وسائل پر قابض مسلط طبقہ ڈائن کی طرح نوچ نوچ کر وسائل کھا رہے ہیں اور آواز اٹھانے جمہوری جدوجہد پر ہمارے نوجوانوں کو اٹھا کر انکے  بوٹیاں کھا رہے ہیں اس حالات میں حکومت اور انکے آقاؤں سے کسی خیر کی توقع نہیں کرسکتے، بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ عوام کو درپیش مشکلات کے باعث بیس دن بعد دھرنا ختم کیا گیا۔ ماورائے آئین اور قانون ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر خواتین سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ریاست نے ہمارے پر امن لانگ مارچ میں رکاوٹیں ڈالی۔وڈھ سے لیکر مستونگ تک لوگوں نے ہمارا تاریخی استقبال کیا۔ لکپاس پر ہر لمحہ خطرے سے خالی نہیں تھا۔ پرامن سیاسی اور جمہوری احتجاج پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی تحریک کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ سردار اخترجان مینگل کی جانب سے دھرنے ختم کرنے بعد عوامی رابطہ مہم تحریک کے آغاز کا اعلان کیا۔ عوامی رابطہ تحریک کے تحت حکومت کے خلاف بی این پی جلسے اور عوامی احتجاج کا آغاز کریگی۔ پہلے مرحلے میں مستونگ، قلات، خضدار، سوراب میں احتجاجی جلسے، دوسرے مرحلے میں تربت، گوادر، مکران کے علاقوں میں احتجاجی جلسے اور تیسرے مرحلے میں نصیر آباد، جعفر آباد و دیگر علاقوں میں احتجاجی جلسے منعقد کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی جانب سے 28 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ حکومتی عدم اجازت کی بنا پر بی این پی نے کوئٹہ سے قریب لکپاس کے مقام پر احتجاجی دھرنا دیا جو 20 روز تک جاری رہا

Post a Comment

Previous Post Next Post