ریاستی اداروں کی جانب سے ہراسمنٹ، جبری گمشدگیوں کی دھمکیاں ، سازشیں اور بیانیے ہمیں پرامن جدوجہد سے دستبراد نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

 


کوئٹہ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی
کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہاکہ
بلوچستان میں جو جاری ریاستی جبر ہے ہم سے بہتر آپ جانتے ہیں ہم نے ایک مختصر سے دورانیے میں ریاستی جبر کو نہ صرف دیکھا بلکہ سہہ بھی لی ہے اسی طرح آپ کے ادارے سے تعلق رکھنے والے درجنوں صحافی اسی جبر کا شکار ہوئے، جبری زبان بندی کیا ہوتی ہے آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے، جبری گمشدگی کی دھمکیاں، ہراسمنٹ اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بارے میں بھی آپ جانتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ بلوچستان کو پچھلے سات دہائیوں سے جبری زبان بندی کیلیے ریاستی دباؤ کا سامنا ہے اپنی ریاستی جبر، استحصالی منصوبے، وسائل کی لوٹ مار اور سیاسی انجیئنرنگ کے طور اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ اسی طاقت کو برقرار رکھنے اور بلوچوں کی جائز انسانی حقوق کی پامالی کیلئے اب تک پانچ بڑے فوجی آپریشنز کرچکا ہے اور پچھلے بیس سالوں سے بلوچستان میں قبرستان آباد کئے جارہے ہیں مگر کوئی تو پوچھے حاصل کیا ہوا۔؟ یا اس جبر سے حاصل کرنا کیا چاہتے ہیں۔؟ یہ ہمارا وطن ہے کیک سجھ کر اس کو کاٹا گیا، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار جاری ہے اور آج بھی پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں بیٹھ کر کوئی بلوچستان کی مختلف یونٹوں میں تقسیم کاری، کوئی ہماری شہ رگ گوادر کو کاٹنے، کوئی تو ہماری تاریخی حقیقت سے ہی مُنکر ہیں۔؟ ان تمام چیزوں کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایک ہی جواب جو مل سکتی ہے وہ ہے بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا، ان کی شناخت کو مٹانا، ہزاروں سالوں کی وطن کو ٹکڑوں میں بانٹنا، اور یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی عیاشیاں مکمل کی جاسکیں۔

پریس کانفرنس میں کہاکہ بلوچستان ہمارا وطن ہے اس پہ جاری جبر کیخلاف بولنا ہمارا فطری حق ہے، ہم پھر سے کہیں گے اپنے سرزمین پہ جو خدا کی عطاکردہ ہے جو ہمیں اپنے آباؤاجداد کی ہزاروں قربانیوں کے بعد وراثت میں ملی ہے اس پہ رہنے کا، سانس لینے کا، فیصلہ سازی کا اختیار ہمارا فطری حق ہے اور جب کبھی ہمارے اس فطری حق کو چھیننے کی جس بھی طاقت نے کوشش کی بلوچوں نے اپنی کمزور سی پوزیشن میں ہی سہی لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔ ہماری قومی تاریخ، ثقافت، نظام زندگی اور اخلاقی و رویتی رشتوں سے نابلد حکمران، ان کی دانشور و صحافی میڈیا بریفنگ و ٹاک شوز میں جو شیخیاں بگھارتے ہیں ان سے معروضی حقیت گھمبیر ہوتی جارہی ہے ہماری تاریخ مزاحمت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ہرگزرتے دن کیساتھ بلوچوں کی تاریخی مزاحمت میں نئے اوراق حصہ بن رہے ہیں لیکن ان تمام تر چیزوں سے بے خبر حکمران طاقت کے نشے میں چور  ہوکر بلوچوں کو ملیا میٹ کرنے کی دھمکیاں لگاتے ہیں.

انھوں نے کہاکہ بلوچوں کی سیاسی تاریخ سیاسی جہدکاروں کی خون سے لکھی ہوئی ہے گزشتہ سات دہائیوں کی سیاسی جدوجہد پہ نظر دوڑایا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیاسی رہنماؤں، کارکنوں نے جیلوں کی سختیاں دیکھیں، پھانسی کے پندوں کو چوما، بندوق کی گرم گولیوں کو اپنے خون سے سرد کیا لیکن ایک چیز جو ہمیں ہمارے پیش رؤں نے دی وہ طاقت کے سامنے سر نہ جھکانے کی روایت، بھلا موجودہ حکمران بابو نوروز سے بے خبر ہیں یا حمید بلوچ کی پھانسی کو بھول چکے ہیں اتنی کمزور حافظہ ریاستی حکمرانوں کی ہے شاید کسی کی نہ ہو، لیکن ہربار کی ریاستی جبر کو گزشتہ حکمران اپنی غلطیاں سمجھ کر جہاں معافیاں مانگتے ہم دیکھتے ہیں وہ چاہے ذولفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف و آصف علی زرداری، مگر چونکہ ان کے اپنے حافظے کمزور ہیں شاید انہیں لگتا ہے کہ بلوچوں کی اجتماعی یاداشتیں بھی ان کی طرح ہیں لیکن پچھلے سات دہائیوں کی جبر بلوچوں کے اجتماعی یاداشتوں کا حصہ ہیں ماؤں کی لوریوں سے لیکر شاعر و شاعری تک، آج بھی وہ سب کچھ بلوچوں نے سینے لگا رکھے ہیں جو زخم اسلام آباد کے عطا کردہ ہیں۔

ڈاکٹر نے کہاکہ ہمارے ساتھیوں کو سیاسی جدوجہد سے دستبردار کرنے کیلیے ریاست مختلف حربے آزما رہے ہیں جبری گمشدگیوں سے لیکر دھمکی آمیز فون کال تک، تاکہ بلوچستان میں جاری جبر کیخلاف بلوچ یکجہتی کی غیر متزلزل جدوجہد کو کچلا جاسکے۔ بہت سارے واقعات جو میڈیا پہ کبھی نہیں لائے گئے کیونکہ ہم سجمھتے ہیں بلوچوں کی اجتماعی تکالیف ہماری زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں تبھی اپنے اوپر ہونے والے ریاستی دباؤ کو ہم کبھی میڈیا پہ نہیں لاتے، لیکن آج یہ ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کے رہنما و کارکنان کیخلاف ہونے والے ریاستی سازشوں اور جبر سے پردہ چاک کیا جائے۔ ہمارے خلاف ہونے والے میڈیا بیانیے سے لیکر دہشت گرد و سہولت کار، اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات تک سب کچھ عوام جانتی ہے لیکن یہ تمام تر چیزیں ہمیں ہماری سیاسی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا پائیں گے۔

بی وائی سی سربراہ نے کہاکہ ہم آپ کو گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھیوں پہ ریاستی دباؤ اپنی آخری حدیں  چھور رہا ہے گزشتہ ہفتے ہماری تنظیمی کارکن گل زادی بلوچ کو کوئٹہ میں واقع ان کے کمرہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ دن دھاڑے گیارہ بجے کے قریب سی ٹی ڈی (CTD) کے 20 بے لگام اہلکار کمرے میں داخل ہوئے۔ گل زادی بلوچ کو بازو سے پکڑ کر تشدد کیا اور ان کو اسلحہ دکھا کر کہا " ہمارے ساتھ چلو ورنہ ہمیں آپ کو لے جان آتا ہے"۔ اس کے علاوہ کمرے میں موجود کتابیں، موبائل فونز، لیپ ٹاپ اپنے ساتھ لے گئے۔

انھوں نے کہاکہ گل زادی بلوچ کو زور زبردستی اپنے ساتھ سی ٹی ڈی کے کیمپ لے گئے۔  وہاں ان کوشدید ذہنی اذیت کا شکار بنایا گیا۔ انہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی سے دستبردار ہونے، لاپتہ افراد کے حوالے سے جاری جدوجہد سے الگ ہونے اور خاموشی اختیار کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ " تم سب ایک گولی کی مار ہو" کا کہہ کر ان سمیت ان کے ساتھی جہدکاروں کو واضح طور پر دھمکایا گیا۔ سی ٹی ڈی نے ان کو واضح دھمکی دی کہ ہم آپ کے خاندان کے تمام افراد کو جانتے ہیں۔ آپ کے بھائی کو بھی ہم جانتے ہیں۔ اور اشاروں میں ان کو دھمکی دی کہ اگر آپ انسانی حقوق کے جہد سے دستبردار نہیں ہوئے تو انکو نقصان پہنچایا جائے گا۔ خدشہ ہے ریاست اور اسکے خفیہ ادارے ان تمام تر دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر بلوچ سیاسی جہدکاروں کیخلاف اپنی جبر کا آغاز کرے، جس طرح ہم سے پہلے بلوچوں کی ایک پوری نسل کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ مسخ کرکے ان کی لاشیں پھینکی، وطن بدر ہونے پہ مجبور کیا گیا یا پھر ہمیشہ کیلیے خاموش کیا گیا، اجتماعی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ گُل زادی بلوچ کو کئی گھنٹے جس بے جا قید میں رکھنے کے بعد انہیں یہ کہہ کر دھمکایا گیا کہ ہماری نظریں آپ پر ہیں اور ہم جب چاہیں آپ کو جبری طور پر اپنے آفس لاسکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ جب کبھی ہماری طرف سے آپ کو بُلاوا آئے تو آپ خود سی ٹی ڈی آفس حاضری دیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں واپس آپ کو اٹھایا جائے گا، رہائی کے بعد مسلسل سی ٹی ڈی اہلکار انہیں فون کالز کررہے ہیں اور وٹسپ وائس و کالز کرکے دھمکا رہے ہیں کہ اپنے اوپر ہونے والی جبر کو کسی کے سامنے مت لائیں ورنہ نقصان پہنچایا جائے گا۔

ماہ رنگ نے کہاکہ بلوچستان میں عوامی حقوق کی بات کرنا، یا پھر ریاستی جبر کیخلاف بولنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے اور ہم اس کو بخوبی جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس نازک موڑ پہ جہاں ہماری بقا خطرے میں وہاں انفرادی تحفظ معنی نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے زندگی کو ہتھیلوں پہ رکھ کے جدوجہد کررہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ ریاست ہمیں مارسکتی ہے، جبری گمشدگی کا شکار بناسکتی ہے ہمارے خاندانوں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناسکتی ہے لیکن اس کے باجود ہم یہ تہیہ کرچکے ہیں کہ اپنے ہم وطنوں پہ ہونے والے جبر کیخلاف کسی صورت خاموش نہی ہوں گے، نا ہی اپنے سیاسی جدوجہد سے دستبردار ہوں گے۔ ہم ریاستی اور اس کے اداروں کو واضح کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی کا خوف ہو یا دھمکی آمیز فون کالز ہوں، ہم کسی صورت اپنے سیاسی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے، جبری گمشدگیوں کیخلاف خاموش نہیں ہوں گے اور کسی بھی صورت ان دھمکیوں سے اپنی جائز پرامن جدوجہد سے دستبردار نہی ہوں گے۔ ہمارے سیاسی جدوجہد سے خائف ہو تو اپنے غیر انسانی اعمال ترک کرو، بلوچوں کو جبری گمشدہ کرنا چھوڑ دیں، بلوچ وطن پہ ہونے والے جبر کو ختم کریں، اور بلوچ قوم کو اپنے سرزمین پہ زندہ رہنے کا حق دیں، ہمارے مطالبات اور جدوجہد انہیں چند نقاط پہ محور ہے اور یہ تمام تر مطالبات عین آئینی اور جمہوری ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ ہم ریاستی اداروں، میڈیا کے افراد، دانشوروں اور عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہماری جدوجہد مکمل پرامن ہے، مکمل آئینی دائرہ کار کے اندر ہے اور اسکو مکمل بلوچ عوامی حمایت حاصل ہے، ہم نہ کسی کے ایجنٹ ہیں نہ کسی کے سازش کا حصہ ہیں نہ ہی ہم یا ہمارے کارکن اپنے ذات کیلیے کوئی آسائش مانگ رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد بلوچ عوام پہ ہونے والے مظالم کیخلاف ہے اور جب تک ان مظالم کو نہیں روکا جاتا کوئی اس واہمے کا شکار نہ ہو کہ دھونس دھمکیوں، جبری گمشدگی یا موت ہمیں اس جدوجہد سے دستبردار کرسکے گا۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post