تربت ( ویب ڈیسک ) تربت لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے ایک دفعہ پھر ایم 8 شاہراہ کو جدگال ڈن پر بلاک کردیا۔
بہمن سے لاپتہ کیے گئے نعمان رفیق، اسماعیل خیر محمد اور نعیم بشیر کے فیملی ممبران نے جدگال ڈن(ڈی بلوچ پوائنٹ) پر ایم 8 شاہراہ کو دھرنا دے کر بلاک کردیا ،انھوں نے جاری ویڈیو پیغام میں کہاکہ اسی سال 2025 کے اوائل ابتدائی آغاز میں تقریباً سینکڑوں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے سیکنڑوں بلوچوں کو ماورائے عدالت فیک انکاؤنٹر فیک بلاسٹ میں قتل کئے جا چکے ہیں
بلوچستان میں بلوچ قوم گزشتہ 77 برسوں سے کوئی ترقیاتی منصوبہ اورنج ٹرین میٹرو بس نہیں مانگ رہے ہیں ۔
بلوچ قوم صرف سامراجی قابض گیر قوتوں سے اپنی زندہ رہنے آزادی سے سانس لینے جینے کی حصول کیلئے مزاحمت کر رہے ہیں۔
ان ظالم جابروں نے بلوچ قوم سے انکی جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے فرعونی یزیدی دور کے تاریخ میں کہانی کسی نے سنا ہوگا لیکن یہاں بلوچستان میں باقاعدہ اس کی آغاز 1948 سے شروع ہوا جو تاہنوز جاری ہے۔
ریاست و ریاستی مقتدرہ قوتوں کی نہ ختم ہونے والے جبر جارہیت بلوچستان بلوچ قوم پر 1948 سے شروع ہو گئی اسی روز سے بلوچ قوم سامراج قابض گیر قوتوں سے نبر آزما برسر پیکار ہیں ۔
جدید ترقی یافتہ دور میں وہ ترقی یافتہ ممالک نے سرمایہ کاری صنعت تعیلم ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کیا گیا یہاں بلوچستان میں بلوچ نسل کش پالیسیوں میں تیزی بلوچ نسل کش پراجیکٹس کو مزید جدید ترقی یافتہ دور میں استوار کرتے ہوئے جبری لاپتہ فیک انکاؤنٹر فیک بلاسٹ ٹارگٹ کلنگ ڈیڑھ اسکواڈ کئی دیگر طریقہ کار بلوچ نسل کش پالیسیوں کیلئے بروکار لائے گئے ہیں جس پہ تیزی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے ،
لیکن گزشتہ 24 سالوں کے دوران بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کش پالیسیوں میں تیزی سے ترقی کیا گیا ہے اس کام میں کوئی غفلت کوتاہی نہیں برتی گئی گزشتہ 24 سالوں سے
مسلسل بلوچ قوم جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف استحصال کیخلاف بلوچستان میں ہر روز احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے دیئے جا جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان میں فیک انکاؤنٹر ماورائے عدالت ہلاکتوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کیخلاف VBMP کے زیر اہتمام بھوک ہڑتالی کیمپ گزشتہ 15 سالوں سے جاری ہے جوکہ گزشتہ 15 سالوں سے طویل عرصے تک جاری رہے ہیں آج تک جاری ہیں۔
بلوچستان میں اس وقت مکران سمیت جھالاوان کوئٹہ حب چوکی پر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے جاری ہیں، بلوچستان کی اہم قومی شاہراہیں مکمل طور پر بند ہیں، اور پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ ہر سڑک، ہر علاقہ، ہر گاؤں—ریاستی جبر سے متاثرہ لوگ احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں اس وقت ریاستی نظام مکمل طور پر مفلوج ناکام ہو چکا ہے۔ اس سنگین ایشوز پر نا تو عدلیہ نوٹس لیتی ہے ناکہ ریاستی مقتدرہ بااثر قوتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اینٹر نیشنل کمیونٹی عالمی برادری بلوچستان کے مسئلہ پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے اگر دنیا پرامن سیاسی جمہوری مزاحمت پہ یقین رکھتا ہے۔
تو صرف 2025 گزشتہ دو مہینوں میں ریاستی مقتدرہ قوتوں کی جبر سے متاثرہ عوام سینکڑوں بار سخت سردی آندھی طوفان شال مستونگ سوراب منگوچر اسلام آباد کی یخہ بستہ سردی کیچ کی 50 سینٹی گریڈ گرمی میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا دھرنا دیئے گئے ۔
مظاہرین نے کہاکہ بلوچستان کی تمام شاہراہوں پہ دھرنا دے کر مکمل طور پر بند کر چکے ہیں
بلوچستان کے عوام ریاستی نظام سے اپنی بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں۔ ریاستی جبر سے متاثرہ لواحقین نے ہر جگہ متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے آفس چوک چوراہوں پر ہر جگہ اپنی اختجاج ریکارڈ کروایا تو بجائے انہیں سننے ان کا مزاق اڑایا اسے ہرانے کی کوشش کیا گیا ہے
ریاستی جبر سے متاثرہ خاندان بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اس سخت سردی اور بارشوں کے موسم میں اپنے گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پریار و مددگار پڑے ہیں، انکی کوئی شوق نہیں سامراج قابض گیر قوتوں مظالم اور جبر نے انہیں اس قدر مجبور کر دیا ہے۔ انہیں چھین نہیں آتا کیونکہ گھر کے ایک خاندان کے واحد کفیل ایک مردتھا اسے اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیا گیا تو عورتیں کس طرح گھر میں بیٹھ جاتی ہیں
بلوچستان میں روز بروز انسانی حقوق کی پامالیوں کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے، بلوچ عوام ریاست کے بدترین مظالم کے خلاف کوئٹہ حب چوکی سوراب کیچ مکران مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
دنیا اقوام عالم یونائیٹڈ نیشن پرامن جمہوری آئینی نظام پہ یقین رکھنے والوں کیلئے کھلا چیلنج ہے
گزشتہ 77 برسوں سے بلوچستان میں بلوچ نسل کش پالیسیوں کیخلاف بلوچ سیاسی آئینی جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن قابض گیر قوتیں اپنے جبر اور بربریت کو کم کرنے بلوچ نسل کشی ختم کرنے کے بجائے ریاست و ریاستی مقتدرہ قوتیں مظلوم بلوچ عوام کو سنگین قسم کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ پرامن سیاسی جمہوری عمل احتجاج کرنے والے متاثرہ لوگوں سیاسی رہنما و کارکنوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں اور انہیں ہراساں کرنے کی سلسلہ بدستور جاری ہے۔
ریاست اور ریاستی مقتدرہ قوتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ قوم کو گزشتہ 77 برسوں سے جبر ریاستی مظالم کا سامنا کر کے اپنی قومی تشخص بقاء ننگ ناموس کی حفاظت تحفظ کی پاسداری کرنے کیلئے کبھی دستبردار نہیں ہوئی مسلسل مظالم سہنے کے نتیجے میں مظلوم محکوم قوموں کے دل سے خوف ختم ہو چکا ہے۔
آپ اپنی منفی ہتھکنڈوں دھونس دھمکیوں ہراسان کرنے سےانہیں خاموش نہیں کرا سکتے کیونکہ انکی دلوں میں آگ جل رہا ہے بلکہ آپ کی یہ دھمکیاں اور طاقت کا استعمال بلوچ قوم کی دکھ درد میں مزید شدت انکی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا ۔
بلوچ قومی مزاحمت کو منظم مستحکم کرنے کیلئے مزید توانائی فراہم کرے گا۔ دھمکی اس وقت کام آئے گا جس کیساتھ مسئلہ ہوا نہیں ایک عورت کی شوہر ماں باپ کا بیٹا بہن کا بھائی چھین کر اسے اس سے بدترین کرب کیا ہے ایسے درد زدہ لوگوں کو کس طرح خاموش کرو گے بجائے اسکی داد رسی کرنے کیلئے یہ نہ ڈریں گے نہ دبیں گے دھونس دھمکی والا پالیسی انہی مقتدرہ قوتوں کی حماقت ہے