نوشکی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ترجمان بیبرگ بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ پولیس ایڈیشنل (ایس ایچ او
اسد اللہ بلوچ) کی جانب سے پاکستانی دشمن فوج خفیہ ایجنیسوں کے اشارے پر جاری بیان کو عوام کو گمراہ کرنے اور قابض ریاست کی جانب سے بلوچ آزادی پسند تنظیموں اور علاقائی عوام کو آپس میں لڑانے کی سازش اور گمراہ کن قراردیتے ہیں ۔
جس کا مقصد عوام کو صاف الفاظ میں حکم دینا ہے کہ وہ سرکاری مخبر بن کر بلوچ سرمچاروں کی نشاندہی کریں تاکہ وہ تاریخ میں اپنی قوم کا غدار ٹھر کر بدنام زمانہ عیدو کھلائیں۔ ( جنھوں نے جنرل ڈائر کیلے مخبری کی،پھر بھی انگریز نے تاریخ میں اسے بلوچ قوم کا غدار لکھا ) ۔
انھوں نے کہاہے کہ موصوف نے بیان میں قابض ریاست کی جانب سے بے خبری میں جرم کا اعتراف کیا ہے کہ تمام ٹاورز گھروں میں لگائے جاتے ہیں ۔ "تمام مواصلاتی ٹاورز، جن میں ٹیلینار، یوفون، زونگ، وارد اور دیگر فرنچائز کمپنیاں شامل ہیں ،تمام جہاں جہاں لگائے ہیں وہ رہائشی گھروں میں ہیں ۔
اس بات سے واضح ہوئی کی،جس طرح پاکستانی فورسز اپنی کیمپ چوکیاں عوامی املاک گھروں ،اسکول ،دیہی طبی مراکز مساجد پر قبضہ کرکے انھیں کیمپ چوکیوں اور خفیہ اداروں کیلے زبردستی عوامی خواہش کے برعکس مراکز بناتے ہیں اس طرح مواصلاتی ٹاورز اور دیگر استحصالی کمپنیوں کے عمارات اس لیے عوام کی بیچوں بیچ ،لگائے ، بنائے اور تعمیر کیے جاتے ہیں تا کہ بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں کو بلیک میلنگ زریعےروک سکیں اگر وہ حملہ کریں تو بھی ان حملوں کو پروپیگنڈہ کے طورپر استعمال کرکے بلوچ چادر چاردیواری کی پائمالی کرار دیکر انھیں آپس میں الجھائے اور بدگمانی پیدا کر سکھیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس حوالے سے ہم بی این اے کی جانب سے وضاحت کریں کہ پہلی بات یہ کہ جہاں جہاں رہائشی گھروں میں قابض فورسز نے جاسوسی کیلے استعمال ہونے والے ٹاورز لگائے ہیں انھیں بخوبی علم ہے کہ مذکورہ ٹاور کی وجہ سے مذکورہ جگہ اور آس پاس قریب رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار ہو جاتےہیں مگر اس کے باوجود وہ لوگوں کے خواہش کے برعکس دھونس دھمکی سے ٹاور نصب کردیتے ہیں تاکہ حملے کی صورت میں انھیں افواہ اور پروپیگنڈہ کا اچھا موقع ہاتھ آئے جس طرح مذکورہ ایس ایچ او نے بیان داغ کر من گھڑت پروپیگنڈہ کرکے عوام کو مخبری کیلے ترغیب دیکر بدگمانی پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ حالاں کہ موصوف کو بھی معلوم ہے کہ سرمچار خاموشی سے بغیر دہشت خوف پیدا کیے اپنی کاروائی سرانجام دیتے ہیں ۔مذکورہ جگہ خاموشی سے پہنچ کر بغیر گولی چلائے ان کی مشینری کو آگ لگاکر چلے جاتے ہیں تاکہ اہل محلہ خوف زدہ نہ ہوں ۔
سرکاری کاسہ لیس جوکہ اپنی نوکری مزید پکی کرنے اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے تھپکی حاصل کرنے کیلے مزید لکھتے ہیں کہ "مورخہ 26 دسمبر 2024 کو رات 11:45 بجے قاضی آباد کے علاقے چاغی اسٹاپ کے قریب ٹیلینار ٹاور کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، پولیس کی بروقت کارروائی سے نہ صرف آگ پر قابو پایا بلکہ ٹاور اور قریبی رہائشی گھر بھی بڑے نقصان سے بچا لیے گئے"
بی این اے کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ موصوف کی باتیں جھوٹ پرمبنی ہیں وقوعہ دوران نہ انکی پولیس پہنچی نہ ہی کسی گھر کو نقصان پہنچا اور نہ ہی کوئی سرکاری مشینری کے جلائے جانے کی وجہ سے کوئی خوف کا شکار ہوا۔
موصوف کہتے ہیں کہ " یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ان واقعات سے ٹاورز کے قریب رہنے والے گھروں میں موجود خواتین اور بچے شدید ذہنی کیفیت اور خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ دہشت گردوں کی جانب سے بلوچ روایات اور انسانی اقدار کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو ہمیشہ خواتین اور بچوں کے تحفظ کو مقدم سمجھتی ہیں۔
ہم موصوف سمیت نوکری پکی کرنے والے ایسے چاپلوس غلاموں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب دشمن فوج خفیہ ایجنیسان ،کاونٹرٹیرزم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی، مقامی مسلح ڈیتھ اسکوائڈ کے سرکاری کارندےغیر قانونی اپنی قانون کو روند کر آئے روز ہمارے گھروں میں پھلانگ کر ہماری بلوچ ماوں بہنوں کو تشدد کا نشانہ بناکر کھروں کے قیمتی اشیاء لوٹ کر ان کے پیاروں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں تو پولیس اور لیوز کہاں ہوتی ہے ؟ انھیں اپنی اختیارات اور بلوچ روایات کیوں یاد نہیں آتیں ہیں ۔ دوسری جانب موصوف کو یہ بھی معلوم ہے کہ ٹاورز یا انکی مشینری کسی کے رہائشی کمروں میں نہیں رکھے گئے ہوتے ہیں بلکہ وہ چاردیواری کی اندر محدود ہیں ،اس کے باوجود ایسی زہر پھیلانے کا مقصد قومی دشمنی کے سوائے کچھ نہیں ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ ہدایات برائے سیکیورٹی کے عنوان پر موصوف لکھتے ہیں کہ
"ایسے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس نے درج ذیل اقدامات کی ہدایت کی ہے:
1. چوکیدار کی موجودگی:
تمام مواصلاتی ٹاورز پر تعینات چوکیدار اپنی ڈیوٹی پر مکمل طور پر موجود رہیں اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔
2. مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع:
کسی بھی مشکوک شخص یا سرگرمی کو دیکھنے پر فوری طور پر پولیس تھانہ سٹی کو اطلاع دیں۔
3. رہائشیوں کا تعاون:
ٹاورز کے قریب رہنے والے افراد حفاظتی اقدامات میں پولیس کا ساتھ دیں اور مشکوک حرکات پر نظر رکھیں۔
4. اضافی گشت:
پولیس کی جانب سے حساس مقامات پر گشت میں اضافہ کیا گیا ہے، عوام اس دوران پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔"
ترجمان بی این اے نے کہاہے کہ اس حوالے ہم یہاں اپنی پالیسی پھر واضح کریں کہ کوئی بھی چوکیدار، یا شہری اگر پولیس ،قابض فورسز کو اطلاع دینے کی کوشش کرے گا وہ مخبری کی دائرے میں شمار ہوگا اور مخبری کی سزا بلوچ عدالت میں واضح ہے ،جہاں تک چوکیدار کی موجودگی ہے وہ اگر گولی چلانے کی غلطی کرے گا تو انجام کیلے تیار رہنا ہوگا ۔
ہم پولیس لیویز مقامی انتظامیہ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی بلوچ کی گھر میں دشمن پاکستانی فوج ،ایف سی ،سی ٹی ڈی انکے سرکاری جتھے لوگوں کو اغوا کرکے املاک لوٹنے آتے ہیں کیا وہ متاثرین کی ماں بہنوں کی چیخ سسکیوں کی آواز پر پہنچ پائیں گے ،اس پر انھیں دشمن فورسز کے نام وضاحتی بیان جاری کرنا چاہئے۔
انھوں نے کہاہے کہ ہم ایک بار پھر سرکاری اداروں میں نوکری کرنے والے بلوچ آفیسران ،اہلکاروں چاہئے فوج ،ایف سی ،پولیس ،لیویز ،سی ٹی ڈی وغیرہ میں ہوں وہ پہلی بات بلوچی روایات کو نہ بھولیں دوسری بات دشمن کی قبضہ کو مضبوط کرنے کیلے اپنے کاندھے کو استعمال نہ ہونے دیں آخری بات وہ جان لیں کہ وہ بلوچ آزادی پسندوں کی اپنی نوکری کی وجہ سے مدد نہیں کرسکتے نہ کریں مگر سرمچار کے سامنے دشمن کی فورسز کی طرح کھڑے نہ ہوں اور اس طرح بلوچ سرمچاروں اور عوام کے درمیان زہر نہ پھیلائیں اگر کھڑے ہوتے اور زہر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو بھو ل جائیں کہ آپ پر بھی رحم کیاجائے گا۔ جو حالت پاکستانی فوج ایجسیوں ، مخبروں کی ہے اس سے برا آپ کے ساتھ ہوگا کیوں کہ وہ اتفاقیہ سرمچاروں کے قہر سے بچا تو یہاں سے بھاگ جائے گا مگر آپ کا جینا مرنا اس سرزمین پر ہے اور یہ جان لیں آپ سے ہر حال میں حساب لیاجائے گا ۔
ایک بار پھر عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قابض ریاست کے استحصالی منصوبوں سمیت فوج کا حصہ نہ بنیں اور انھیں اپنے درمیان جگہ نہ دیں، چاہئے ان کی چوکی ،کیمپ ،ٹاورز ،یا معدنیات لیجانے لوٹنے کے منصوبے ہوں حصہ نہ بنیں کیوں کہ وہ ہروقت ہمارے نشانہ پر ہیں۔