حنیف بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، طلباء تنظیمیں


کراچی ( پریس ریلیز ) بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل جامعہ اردو کراچی کے ترجمان نے  اپنی جاری کردہ بیان میں 16 اکتوبر کو کراچی  کے علاقے بشیر ولیج سے حنیف بلوچ اورا نکے دیگر ساتھیوں  کا پاکستانی  فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر گمشدگی کا سخت  الفاظ میں مذت کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہےکہ حنیف بلوچ، جو کہ بلوچستان کے علاقے اورماڑہ کے رہائشی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کے مائیکروبائیولوجی ڈپارٹمنٹ کے طالبعلم ہیں، کو 16 اکتوبر کی رات کراچی کے علاقے بشیر ولیج سے پاکستانی فورسز نے ان کے دیگر ساتھیوں(شعیب بلوچ ولد بختیار، رہائش پسنی ،اشفاق  بلوچ ولد خالق داد، رہائش گریشہ خضدار، شہزاد   بلوچ ولد خالد، رہائش گریشہ، خضدار، یبرگ امیر  بلوچ ولد امیر بخش، رہائش واشبود، پنجگور، زبیر  بلوچ ولد کریم بخش، رہائشی مند اور قمبر بلوچ ولدمسکان) سمیت جبری طور پر اغوا کر لیا۔ یہ واقعہ ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ نوجوانوں کے بنیادی حقوق پر براہِ راست حملہ ہے۔

 ترجمان نے مزید کہا  ہےکہ جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے، جہاں طالبعلموں کو ان کی تعلیمی سرگرمیوں سے زبردستی محروم کر کے ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اس غیر انسانی عمل کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور اس عمل کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ناقابلِ قبول قرار دیتی ہے۔

 ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً حنیف بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو بازیاب کرے اور ان کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کرے۔

ترجمان نے کہا ہےکہ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

ترجمان نے کہا کہ حنیف بلوچ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے اہل خانہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور ان کی بحفاظت بازیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔


اس طرح بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں مختلف شہروں سے بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگی میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ رواں ہفتے بلوچستان بھر سے درجنوں نوجوانوں کو جبراَگمشدہ کرکے لاپتہ کیا گیا ہے جن میں اٹھارہ کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔ اسی طرح 16 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی کے علاقے گُلشن اقبال بشیر ولیج میں طلبہ ہاسٹلوں پر چھاپے مارتے ہوئے وہاں سے آٹھ طالبعلموں کے جبراَ گمشدہ کیا گیا اور ان کےسامان و دوسر ے چیزیں بھی اپنے ساتھ لے گئے جبکہ دوسری جانب وندر سے ایک اور خضدار کے علاقے کوڈاسک سے ایک طالبعلم کو جبری گمشدگی کا شکار کیا گیا۔ اسی طرح اسی ہفتے تربت سے دو نوجوانوں اور پنجگور سے دو نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جبکہ پچھلے ہفتے بھی دو نوجوان پنجگور سے جبری گمشدی کے شکار ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا ہےکہ لواحقین کی احتجاج و پرامن مظاہروں سمیت دوسرےانصاف کے درازے کٹکٹانے کے باوجود ان کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔ ایک طرف ماورائے عدالت بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار کیا جاتا ہے تو دوسری جانب نام نہاد انصاف کے ادارے ایف آئی آر کاٹنے سے بھی کتراتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ کراچی سمیت دیگر علاقوں سےجبری گمشدگی کے شکار ہونے والے طالبعلم جامعہ کراچی، فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی و اوتھل یونیورسٹی لسبیلہ کے طالبعلم تھے جبکہ ان میں کچھ انٹرمیڈیٹ کے طالبعلم بھی شامل ہیں۔ بلوچ طالبعلموں کو قومیت کے نام پر اس طرح ٹارگٹ کرکے جبری گمشدگی کا شکار کرنے کاعمل اجتماعی سزا کے زمرے میں آتی ہے جو انتہای تشویشناک ہے ۔ جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ سے بلوچ طالبعلموں کے اندر انسیکورٹی کا ایک ماحول پیدا ہوئی ہے جس میں تمام بلوچ طالبعلم زہنی کوفیت کے شکار ہیں کہ ان کو بھی کہیں نہ کہیں اجتماعی سزا کے پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار کیا جائے گا۔

ترجمان نے کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ و حکومتی ادارے ملک میں لاقونونیت کا روایت اپنا کر بلوچ طالبعلوں کومتعصبانہ انداز میں نشانہ بنا رہے ہیں جس میں بلوچ معاشرے میں خوف و حراس کا ماحول پیدا ہوا ہے جہاں نوجوان سمیت تمام بلوچ خاندان زہنی مریض بنے ہوہے ہیں ۔

مزید کہا ہے کہ کسی شہری کو جبری گمشدگی کا شکار کرنا ناصرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ ایک سنگین جرم ہے، مگر ریاستی ادارے اپنے ملکی قوانین کو روندتے ہوئےکئی دہائیوں سے بلوچ قوم کو اس کا شکار بناتے آرہے ہیں جس میں زیادہ تر بلوچ طالبعلم اس کے شکار ہورہے ہیں۔ بلوچ طالبعلموں کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر معاشرے میں انسیکورٹی کا فضا پیدا ہونا ساری بلوچ نوجوان نسل کو تباہ و ازیت دینے کے مترادف ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس طرح کے رویوں کو ترک کرکے بلوچ نوجوانوں کو پڑھنے او ر جینے کا حق دے اور ہم تمام جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے طالبعلموں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

ادھر بلوچ طلباء کونسل بہاولپور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اور اس کی تمام تر مشینری بلوچ طلباء کے حوالے سے ایک متعصب پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ بلوچ طلباء کونسل بلاولپور کے رہنماؤں نے بہاولپور پریس کلب میں صحافی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان سے مختص نشستوں پر آنے والے طلبہ کو نومینیشن لیٹر ملنے کے باوجود بھی یونیورسٹی ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے، اس سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور نے انتظامیہ کے ساتھـ کہیں بار ملاقاتیں کئے اور یونیورسٹی سے درخواست کیا کہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جائے، مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے متواتر ایک ہی جواب سامنے آرہا ہے کہ ہمیں ابھی تک وفاق یا پنجاپ گورنمنٹ کی طرف سے فنڈز موصول نہیں ہوئے ہیں اور ہم بغیر فنڈ کے کسی بھی صورت ایڈمیشن نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہاہے کہ اسی سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے ذمہ داران نے ڈائریکٹر آف اکیڈمک اور رجسٹرار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن ان کی طرف سی ہمیں کوئی خاطر خواہ ردِ عمل نہیں ملا۔

طلباء کا اس موقع پر کہنا تھا جیسا کہ بلوچستان سے طلبا کو ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان کی طرف سے نامزد کیا جاتا ہے تو اس سلسلے میں ہم نے ایجوکیشن سیکریٹری بلوچستان، ڈپٹی ڈائریکٹر آف کالجز بلوچستان سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے ہمیں موثر جواب موصول نہیں ہوا، ان کا بھی بیانیہ یہی تھا کہ یونیورسٹی کو فنڈز معاویہ کرنا وفاقی حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی زمہ داری ہے، تو ہم نے بہ ذریعہ ای میل ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ان معاملات سے آگاه کیا لیکن ان کی طرف سے بھی ابھی تک ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔


طلباء نے کہا یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بلوچ طلبا کو ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے، اس سے پہلے بھی 2022 کے فال اور اسپرنگ میں مختص نشستوں پر بلوچستان سے آئے طلبہ کو ایڈمیشنز نہیں دیئے جا رہے تھے، اس سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور کی طرف سے اسلامیہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے ستره 17 دنوں کا احتجاجی کیمپ لگایا گیا تھا۔ جس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بلوچستان کے طلبا کے مابین ایک معاہده ہوا جس میں یہ طے پایا کہ مختص نشستوں پر آنے والے طلبہ کے اخراجات 50% اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور 50% وفاقی حکومت ادا کرے گی-


یہ معاہده بمورخہ 12/10/2022 گورنر ہاؤس پنجاپ لاہور میں قرار پایا۔ یہ معاہده تحریری شکل میں بی ایس سی بہاولپور کے پاس موجود ہے لیکن پھر بھی فال 2024 میں بلوچستان سے آنے والے طلبا کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور مختص نشستوں پر ایڈمیشن دینے سے انکاری ہے۔


انہوں نے کہا جیسا کہ پنجاب کے تمام یونیورسٹیوں میں ڈائریکٹوریٹ آف بلوچستان کی طرف سے مختص نشستوں پر آئے ہوئے طلبہ کو سالانہ وظیفہ ملتا ہے جس کی فنڈنگ بلوچستان حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے جو بذریعہ چیک یونیورسٹی کو ملتے ہیں اور بعد میں طلبہ کو فراہم کیے جاتے ہیں لیکن اس دفعہ یونیورسٹی کی طرف سے طلبا کو وظیفہ دینے میں بھی تاخیر کیا جارہا ہے، جامعہ کی انتظامیہ طلبا کو وظیفہ وقت پر نہیں دے رہے ہیں اور خوامخواه چیزوں کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔


طلباء کا اس حوالے سے کہنا تھا ایک مسئلہ جو لگاتار دیکھنے میں آتا ہے، وه یہ ہے کہ مختص نشستوں پر آئے طلبا کو ہاسٹل الاٹمنٹ فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا درپیش ہوا کرتا تھا لیکن اس دفعہ یونیورسٹی انتظامیہ اور چئیرمین آل کونسل اوپن میرٹ پہ آئے ہوئے بلوچ طلبا کو ہاسٹل الاٹمنٹ دینے سے انکاری ہیں اس سلسلے میں بھی بی ایس سی بہاولپور کے ذمہ داران نے مسلسل چئیرمین آل کونسل اور چیف وارڈن کے ساتهـ ملاقاتیں کیں لیکن انہوں نے بہت ہی تلخ زبانی سے الاٹمنٹ دینے سے انکار کردیا۔


اوپن میرٹ پر آئے بلوچ طلبہ یونیورسٹی کے باقی طلبہ کی طرح اکیڈمک اور ہاسٹل الاٹنٹ فیس کی مکمل ادائیگی کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچ طلبا کے ہاسٹل میں رہائش جیسے بنیادی مسئلے پر حق تلفی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔


طلباء کے مطابق یوں تو تجربے سے ہم نے یہ سیکھا ہے، یہ مکمل ریاست اور اس کی تمام تر مشینری بلوچ طلبا کے حوالے سے ایک متعصب پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن بہاولپور میں موجود بلوچ طلبا اس وقت متعدد دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں، ایک طرف بلوچ وہ انتظامی مسائل ہیں، جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں اور ہماری ناقص عقل کے مطابق یہ تمام اقدام صرف اور صرف بلوچ طلبا پر تعلیمی دروازے بند کرنے کی بہیمانہ کوششیں ہیں، ان انتظامی مسائل کے علاوہ بہاولپور میں رہائش پذیر بلوچ طلبا کو یونیورسٹی کے اندر اور یونیورسٹی سے باہر مسلسل پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ جس کے سبب بلوچ طلبا کی متعدد نفسیاتی دشواریوں کو سامنا ہے، اور یہ اُن کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔


بلوچ کا کہنا تھا اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم یونیورسٹی انتظامیہ اور بلوچستان و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت تک بلوچ طلبا کے مستقبل کو بچانے اور اُن کی خاطر تعلیمی راستوں کو کھولنے کے لئے ہمارے مطالبات پہنچانا ہے۔


۱- مختص نشستوں پر نامزد بلوچ طلبا کو جلد از جلد اسکالرشپ کے تحت ایڈمیشن دیا جائے، تاکہ اُن کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو اور اس امر کی یقین دہانی کرائی جائے کہ مستقبل میں دوبارہ بلوچ طلبا کے مختص نشستوں پر یونیورسٹی یا صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے مسئلہ نہ کیا جائے گا۔



۲- یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بلوچ طلبا کو درپیش ہاسٹل اور انتظامی مسائل کا مؤثر حل نکالا جائے۔


۳- بہاولپور سمیت پنجاب بھر میں بلوچ طلبا کو درپیش ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کے مسائل کو فی الفور حل کیا جائے اور یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ شناخت کی بنیاد پر بلوچ طلبا کو اس طرح کے ہراسمنٹ کا شکار نہ بنایا جائے گا۔


طلباء نے مزید کہا ہم یونیورسٹی انتظامیہ سمیت پنجاب و بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو ان مطالبات پر عمل درآمد کے لئے چار دن کا وقت دیتے ہیں، اگر آنے والے پیر تک ان مطالبات پر عمل نہیں کیا گیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور کی طرف سے یونیورسٹی کے اندر احتجاجی دھرنے کا انعقاد کیا جائے گا، اور یہ احتجاجی دھرنا تب تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔

مزید بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پنجاب کی طرف سے ایک سوشل میڈیا کئیمپین چلائی جائے گی، جس میں ہم تمام دوستوں کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post