مستونگ پریس کلب کے لفافی صحافی آئینہ دکھانے پر بُرا مان گئے، صحافی نیاز بلوچ ۔جمال بلوچ

 


صحافی نیاز بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کچھ دن پہلے میں نے ساروان پریس کلب کے بارے میں عوام کا بیانیہ سامنے رکھا تھا جس میں عوام نے خود اپنی زبان سے سروان پریس کلب کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہی کہا تھا کہ "سروان پریس کلب" اور "وائس آف مستونگ" کے ایڈمنز نے ہمیشہ عوامی بیانیے کو دبانے اور سرکاری افسران کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مستونگ میں بڑھتی ہوئی بدامنی، چوری چکاری اور دیگر مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔


 یہی ایڈمنز صحافت کے نام پر مستونگ میں بہت سی جگہوں پر بھتہ خوری بھی کر رہے ہیں۔اور سوال یہ بھی کیا گیا ہے کہ سروان پریس کلب کے پیج یا گروپ پر بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ڈاکٹر مہارنگ سے متعلق اور بلوچستان میں جاری ظلم و بربریت کے بارے میں خبروں کو کیوں روک دیا جاتا ہے؟


  سروان پریس کلب کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا۔ جس میں مستونگ کی عوام کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے بجائے اپنی تعریفوں کے پل باندھے گئے اور میرے ذات کے بارے میں غیر مہذب اور غیر اخلاقی اور بازاری زبان استعمال کی گئی" دو ٹکے کا آدمی" "لِغڑی" اور "ذہنی مریض" بلیک میلر" جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس طرح کی بازاری زبان ایک حقیقی صحافی تو بلکل استعمال نہیں کرسکتا بلکہ صحافت کا لبادہ اوڑھے، کوئی بھتہ خور، جاہل اور بے شعور انسان ہی کرسکتا ہے۔


 میری تنقید سے بیدار ہونے والے بدعنوان سرکاری صحافی، جنہوں نے میرے بیان کے بعد صرف یکجہتی کی ایک یا دو خبریں لگائی ہیں، دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو کوریج دی ہے۔ عوام جا کر ان کا پیج دیکھ لیں، انہوں نے شرمندگی سے صرف ایک ویڈیو دی ہے، باقی تمام خبریں میری خبروں کی کاپی پیسٹ ہیں۔ اور مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ میں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام پر پیسے لیے ہیں، ان کی سوچ پر مجھے ہنسی آتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی غیر متنازعہ تنظیم کے پیچھے اپنی کرپشن چھپا کر یکجہتی کمیٹی کو متنازعہ بنا رہے ہے۔ یکجہتی کمیٹی کو ان پر کارروائی کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو میں یکجہتی کمیٹی کا رکن نہیں ہوں، میں ایک صحافی ہوں، مجھے کوئی کیوں ان کے نام پر پیسے دے گا؟ اور میں نے آج تک کسی سے ایک روپیہ بھی نہیں مانگا۔ میں ان کو قسم دیتا ہوں کہ ثابت کریں اور کسی ایک بندے کو سامنے لائیں جس سے میں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام پر پیسے لیے ہوں۔ لیکن اگر وہ چاہیں تو میں ثبوت پیش کر سکتا ہوں کہ انہوں نے مستونگ میں ہندو تاجروں کو بلیک میل کر کے ان سے بھتہ لیا ہے، اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام والوں کو بلیک میل کر کے پیسے مانگے ہیں۔ ایک رکن کو تو غریب خواتین سے مار بھی پڑی ہے۔مجھے صحافت کے لیے اس سرکاری پریس کلب کی رکنیت کی ضرورت نہیں۔ مجھے پتا ہے کہ بلوچستان کی نمائندگی کی وجہ سے میرے خاندان کو کتنی اذیت اورتشدد برداشت کرنی پڑ رہی ہے، اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں سے لے کر قیادت تک سب کو معلوم ہے کہ اسلام آباد سے لے کر شال تک اور مستونگ سے لے کر نوشکی تک میں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو کتنی کوریج دی ہے، جس کا یہ سرکاری صحافی بستر پر بھی سوچ نہیں سکتے۔ اور یہ میں نے کسی پر احسان نہیں کیا، بحیثیت ایک صحافی اور بلوچ یہ میرا فرض تھا۔


اس طرح کی بازاری زبان دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پریس کلب پر 5 سال سے قابض لوگ کس سطح کی صحافت کر رہے ہیں، اور ساروان پریس کلب کے پیج پر عوام کے الزامات کا جواب دینے کے بجائے اپنی ذاتی رائے چڑھارہے ہیں۔عوام کے لگائے گئے الزامات کا جوب دینے کے بجائے پریس کلب کی تاریخ بیان کر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ پریس کلب پر کب پابندیاں لگائی گئیں اور کب صحافت پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ سوال عوام نے آپ سے کیا ہے کہ آپ صحافت کے نام پر اپنی جیب گرم کیوں کر رہے ہیں؟ شہر میں پانی، بجلی کی چوری، بدعنوانی اور امن و امان کو چھوڑ کر سرکاری افسران اور سردار نوابوں کی ترجمانی کیوں کر رہے ہیں؟ اس بات کا تو اعتراف آپ خود اپنے بیان میں کر چکے ہیں کہ ہمارے گروپ میں سردار نوابان ہیں اور ہم ان کی خبریں دیتے ہیں، جبکہ خون صرف غریب عوام کا بھتہ لیکر  چوستے ہیں۔


میں ان کی طرح اخلاق کے دائرے سے تو گر نہیں سکتا لیکن ان کے کچھ الفاظ کا جواب ضرور دینا چاہوں گا۔ لغڑی وہی ہے جو سارا دن سرکاری افسران کی جی حضوری کرتا ہے، پانچ دس ہزار پر اپنا ایمان بیچتا ہے۔ اور دو ٹکے کا انسان وہی ہے جو دو ٹکے میں بک جاتا ہے، اور بلیک میلر وہی ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ والوں کو بلیک میل کرکے ان سے 80 ہزار مانگتا ہے، اور  اسی کے چکر میں عورتوں سے مار بھی کھاتا ہے۔اور ذہنی مریض وہی ہے جو بیان لکھتے وقت دوسرے کی ذات پر حملہ کر کے اپنی تربیت دکھاتا ہے۔


 پورے مستونگ کو پتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر کون کہاں پہنچ چکا ہے اور کون حقیقی صحافت کر رہا ہے اور عوام تک صحیح خبر پہنچا رہا ہے۔ مجھے آپ سے کسی ممبرشپ کی ضرورت نہیں، میں تو آپ کی 5 سال سے پریس کلب پر غیر قانونی قبضے پر سوال اٹھا رہا ہوں جس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اور آپ خود کو مافیا سمجھ کر غنڈہ گردی پر اتر آئے ہیں اور بازاری زبان استعمال کر رہے ہیں۔آپ ذرا اپنے بیان کا کمنٹس سیکشن دیکھیے، عوام نے آپ کو آپ کی حیثیت بتا دی ہے۔اور بیچاری عوام جنہوں نے پریس کلب کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، ان کا مؤقف آپ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مطلب آپ صحافت کے نام پر خود کو مافیا سمجھتے ہیں، یہ آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔ دنیا بھر میں ہر جگہ صحافی حکومت سے سوال کرتے ہیں، یہاں عوام نے نام نہاد صحافیوں سے سوال کیا ہے اور آپ عوام سے معافی منگوا رہے ہیں۔ کاش یہی سوال ساروان پریس کلب کے ایڈمننز سے کوئی سردار، نواب یا سرکاری افسر کرتا، تب ان کو پتہ چلتا۔


مستونگ کے عوام سے پُرزور اپیل ہے کہ یرغمال سروان پریس کلب کو اس مافیا سے بچائیں۔ میرے خاندان نے وطن کے لیے خون دیا ہے، لیکن آج صحافت کا لبادہ اوڑھے وہ لوگ جو مستونگ کے حالات خراب دیکھ کر خضدار بھاگ جاتے ہیں اور یہاں کے رہائشی بھی نہیں ہیں، مہاجر ہیں، وہ آ کر سروان پریس کلب کے مالک بنے ہوئے ہیں اور مجھے لِغڑی اور دو ٹکے کا کہہ رہے ہیں۔

دوسری جانب صحافی جمال بلوچ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ سینئر عوام دوست قوم دوست صحافی نیاز بلوچ اور انکے خاندان کی عظیم قربانیوں کے خلاف پریس کلب مستونگ کے چند لفافہ اور سرکاری صحافی بازاری زبان استعمال کرکے من گھڑت اونچے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہے،جنکی جتنی مزمت کی جائے کم ہے، انہوں نے کہا ہم انکو بتانا چاہتے نیاز بلوچ اور انکے خاندان پر کیچڑ اچھالنے سے کوئی اپنے پیشانی کردار اور دامن پر لگے داغ نہیں دھوسکتا، پریس کلب مستونگ کے صحافی صحافت کے ص سے بھی نہ بلد ہے،انکو صحافی نیاز بلوچ نے آئینہ دکھایا تو برا مان گئے،یہ پہلا پریس کلب کے صحافی ہے جو سوال پوچھنے سے اتنے گرگئے کہ دھونس دھمکیوں جاہلانہ سوچ دوٹکے کے بازاری زبان استعمال کرنے لگے،انکی ایسے بازاری زبان جاہلانہ خیالات زہنی مریضوں کے ٹولے بے شعور، قبضہ مافیہ سرکار اور کچھ لوگوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگوں سے مستونگ پریس کلب کو مستونگ کے باشعور صحافت دوست عوام دوست تنظمیں آزاد کرے، انہوں نے کہا دراصل پریس کلب مستونگ کے بلڈنگ پر قبضہ مافیہ سرکاری اور لینڈ مافیہ کی ترجمانی کرنیوالے بےشعور اور اخلاق سے عاری صحافی،دھبہ ہے انہوں نے کہا نڈر سچ گو صحافی نیاز بلوچ کے سچے عوام دوست صحافت ،بلوچ کے مسائل مستونگ کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے،انکی آواز کو،اپنے قلم کے زیرے ملکی ایوانوں تک انسانی حقوق کے اداروں تک پہنچانے،سے ان مافیہ کو جو تکلیف پہنچی ہے،انکے من گھڑت جھوٹے الزامات بازاری زبان سے انکے تکلیف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،کہ انکے دم پر سینئر صحافی نیاز بلوچ نے قدم رکھا ہے،انہوں نے کہا یہ مستونگ کے عوام اور بلوچ قوم کی خوش نصیبی ہے جنکو نوجوان ایک توانا آواز نڈر صحافت کے شعبہ سے لیس صحافی نیاز بلوچ کی صورت میں ملا ہے،جہنوں نے اپنے قلم کے سیاہی کے روشنی سے مستونگ اور بلوچستان کے حقیقی مسائل کی نشاندھی،اور انکو اجاکر کرکے حکام بالا تک پہنچانے سے،اب صحافت کے نام پر دھبہ،اور انکے بتہ خوری،بلیک میلنگ سرکاری کے رحم کرم پر چلنے والے صحافت کو آشکار کردیا،


Post a Comment

Previous Post Next Post