استاد واحد کمبر کو منظر عام پر لایا جائے ۔ لواحقین کی مظاہرے سے خطاب

 


 بلوچ سیاسی بزرگ رہنما  استاد واحد کمبر بلوچ کی بیوی فریدہ بلوچ نے شال میں منعقدہ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میرے شوہر کو رواں سال 19 جولائی کو ایران سے جبری لاپتہ کیاگیا جہاں وہ مہاجرت کی زندگی گزار رہے تھے ۔

انھوں نے کہاکہ ہر بلوچ کا فرض ہے کہ وہ بلوچ پر ہونے والے ظلم کے خلاف یک آواز ہوکر  اٹھیں۔ وہ پاکستانی طرز سیاست چھوڑ دیں اگر وہ طرز سیاست جاری رہے گا تو ہم اچھے سرمچار ،خراب سرمچار  ،اچھے  اسیران خراب اسیران میں بٹ جائیں گے ۔ 

انھوں نے کہاکہ بلوچ سیاست کو جذباتی نہیں نظریاتی کی ضرورت ہے ۔ نظریہ کی بنیاد پر ہم اگر چلیں گے تو منزل پر پہنچ پائیں گے ، ہم جبری گمشدگیوں  ماورائے عدالت قتل  ،فوج کشیوں کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ 

فریدہ بلوچ نے کہاکہ آج سے تیرہ سال قبل میرے چچازاد بھائی کو اٹھایا گیا تو اس درد نےمجھے   سڑکوں پر آنے پر مجبور کی، آج پھر میں نکلی ہوں کیوں کہ مجھ سے استاد کمبر کے بچوں کا درد نہیں دیکھا جا رہاہے ۔ 

انھوں نے کہاکہ کسی کے  جبری لاپتہ  ہونے کا درد صرف اور صرف اس کی اہلخانہ جانتے ہیں ،یہ درد ماہ رنگ سمیت ہزاروں ماوں بہنوں سے پوچھیں  جو اس درد سے گزر رہی ہیں ۔

انھوں نے کہاکہ کسی بھی شخص کو جبری لاپتہ کرنے کا حق کسی بھی ملک کی قانون نہیں دیتا نہی خاندانی تعلق کی وجہ سے کسی کو لاپتہ کیاجاسکتا ہے، اگر ظہیر بلوچ کو اس لیے جبری لاپتہ کیاگیا ہے کہ وہ بشیر زیب کے بھائی ہیں تو بڑی افسوس کی بات ہے ،  بے شک اگر  بشیر زیب ہی بڑا دہشت گرد ہے تو اس میں اس کے خاندان کا کیا تعلق  ؟ وہ  اس کے ذمہدار نہیں ہیں ، لیکن درباری پیٹ پرست سیاستدانوں سے سن کر دکھ ہوا کہ وہ ظہیر بلوچ پر  محض اسلیے الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بشیر زیب کا بھائی ہے۔ 

انھوں نے کہاکہ اگر استاد واحد  کمبر   یا کوئی اور شخص ریاست کے نظر میں   کوئی  جرم کیا ہے اسے آپ عدالت میں پیش کریں ،اگر وہ سیاسی ہے تو سیاسی قیدی کی حیثیت  سے اس کے کیس کو دیکھیں ۔

انھوں نے تمام سیاسی سماجی ،طلباء تنظیموں دانشوروں ،سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بلوچ بزرگ رہنما ء استاد واحد کمبر جس نے بلوچ سیاست میں اپنے  پچاس سال وقف کہئے سمیت ہر جبری لاپتہ شخص کی بازیابی اور ریاست کی جانب سے بلوچ مہاجرین پر دوسرے ممالک میں ہونے والی بمباری اور انھیں قتل اور لاپتہ کرنے کیلے خلاف آواز اٹھائیں ۔ 


Post a Comment

Previous Post Next Post