شہدائے مرگاپ واقعہ نے بلوچ قومی سیاست کونئی سمت اوررخ عطاکی جس کے اثرات بلوچ قومی سیاست پر ہمیشہ رہیں گے۔دل مرادبلوچ سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ



شہدائے مرگاپ شہید واجہ غلام محمد، شہید لالہ منیر بلوچ اور شہید شیرمحمد بلوچ کی یاد میں بلوچ نیشنل موومنٹ یوکے چیپٹر کے زیر اہتمام ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا جس میں بی این ایم کے جنرل سیکریٹری دل مراد بلوچ بطور مہمان خاص اورمرکزی جونیئرجوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ مدعو تھے جبکہ آن لائن پروگرام میں بی این ایم یوکے چیپٹر کے کارکنوں سمیت مرکزی اور زونل عہدیداروں نے شرکت کی۔

آن لائن پروگرام سے مہمان خاص دل مراد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کی تاریخ، بلوچ سیاست کی ماضی اور حال اور شہدائے مرگاپ کی قربانیوں اور شہادت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہدائے مرگاپ بلوچ سیاسی تاریخ کا وہ اہم موڑ ہے جس نے بلوچ سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدل دیااوربلوچ قومی سیاست کوایک نئی سمت اوررخ عطاکی  جس کے اثرات بلوچ قومی سیاست پر ہمیشہ رہیں گے۔

دل مراد بلوچ نے شہید چیرمین واجہ غلام محمد بلوچ کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، پارلیمانی پارٹی کی سیاست سے لے کر غیر پارلیمانی سیاست، بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیام اور شہادت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید چیئرمین کی زندگی اور سیاسی سفر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو غلام محمد بلوچ کی شخصیت میں ہمیں کئی پہلو نظر آتے ہیں لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ واجہ غلام محمد بارہ سال کی عمر سے لے کر اپنی شہادت تک بلوچ قومی سوال پر فکری اور شعوری طور پر یکساں موقف کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ موقف ہے بلوچ قومی آزادی جس کے ثبوت ہمیں ان کی بارہ سال کی عمر میں لکھی گئی شاعری اور شہادت تک سیاسی جدوجہد میں ملتے ہیں۔

بی این ایم سیکریٹری جنرل نے واجہ غلام محمد بلوچ کی سیاسی سفر کی ابتداء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید چیرمین اپنی سیاست کی ابتدائی سفر میں بلوچستان نیشنل موومنٹ جس میں شامل سیاستدانوں کی سیاست کا محور محض سیاسی مالی اور شخصی مفادات تھے میں رہ کر اپنے آزادی کی موقف پر قائم رہے اور پارٹی پلیٹ پر قیادت سے لڑتے رہے گوکہ غلام محمد بلوچ اس سفر میں تنہاء تھے  لیکن اپنی موقف پر استحکام کے ساتھ قائم رہے جس نے آگے جاکر بلوچ قومی سیاست کو سیاسی فکری اور شعوری حوالے سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے تقسیم کردیا جس کی بدولت بلوچ قوم کی آواز اور قومی آزادی کی تڑپ بلوچستان کے گدانوں سے نکل کر بندوبست پاکستان کے علاقے سندھ اور پنجاب سے لیکر امریکہ، یورپ، آسٹریلیاء کینیڈا، سمیت خلیج عرب میں واجہ غلام محمد بلوچ کی فکری ساتھیوں اور انکی قائم کردہ بلوچ قومی پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کی شکل میں گونج رہی ہے جو بلوچ قومی سیاست کے نام پر مالی مفادات اور ذاتی مراعات بٹورنے والے گروہ کی سیاسی اور فکری شکست ہے جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ شہید واجہ غلام بلوچ سے شروع ہوکر شہید لالہ منیر ختم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جب سابقہ بی این ایم کی قیادت نے انضمام کرکے قومی جدوجہدسے انحراف کی تکمیل کی توچیئرمین غلام محمدبلوچ بظاہرتنہا تھے ،سطحی ،مفاداتی ،ٹھیکیداری ،سیکریٹرٹ کے طواف تک محدودسیاست نے قومی سوچ چھین لی تھی  ،پیداگیری صفت بن چکاتھا،عوامی سطح پرقومی آزادی کاکوئی نام لیوا نہ تھا،ایسے حالات میں اعلانیہ  آزادی کے لیے کام کرنا،قومی پارٹی تشکیل اورمسلح جدوجہدکے لیے رائے عامہ ہموارکرناچیئرمین  غلام محمد کی عزم،ہمت ،حوصلہ اورسرزمین سے کمٹمنٹ ،شخصیت کی فکری گہرائی کااعلیٰ ثبوت ہے۔  

بی این ایم رہنماء نے شہید غلام بلوچ کی سیاسی بصیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت پر جب بلوچ سیاست فکری پسماندگی اور شکست و ریخت کا شکار تھا ایسے موقع پر واجہ غلام محمد بلوچ کا معروضی حالات اور قومی سوال پر واضح موقف کے ساتھ بلوچ قومی پارٹی کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اور بلوچ قومی آزادی کی واضح موقف کے ساتھ بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیام  اور بلوچستان کی آزادی کےلیے برسرپیکار مسلح جہدکاروں کی اعلانیہ حمایت ان کی شعوری اور فکری بالیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ عوامی سطح پر واجہ غلام محمد بلوچ پہلے رہنماء تھے جس نے پہلی دفعہ عوامی سطح پر ریاستی جبر، جبری گمشدگی اور قیدوبند کے باوجودِ آزادی کی پیغام کو گھر گھر پہنچایا جس کی مثال بلوچ سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

انہوں نے کہاکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو واجہ غلام محمد بلوچ ہمیشہ کہتے تھے کہ اگر میں شہادت دوسروں کےلیے پسند کرسکتا ہوں تو اپنے لیے کیوں نہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ایک طاقتور ریاست پاکستان کے سامنے آزادی کا نعرہ لگانا ایک معمولی بات نہیں کے باوجود اپنی شہادت تک آزادی کی موقف پر قائم رہے بلکہ بلوچ وطن کی خاطر اپنے دوستوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرکے اسے عملی جامہ بھی پہنایا جس پر اس کے فکری ساتھی آج بھی عمل پیرا ہیں۔

 دل مرادبلوچ نے آن لائن پروگرام میں مزید کہا کہ شہدائے مرگاپ کی قربانی بلوچ قومی سیاست کا وہ دردناک مگر روشن پہلو ہے جس نے بلوچ سیاست، بلوچ سیاسی تاریخ اور بلوچی ادب ہمیشہ کےلیے بدل کر رکھ دیا جس کے دور رس اثرات بلوچ سیاست اور سماج پر واضح نظر آرہے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post