بلوچ لاپتہ افراد کے تحریک کو چندہ معافیا کے رحم کرم پر نہ چھوڑا جائے ۔ تحریر سمیر جیئند بلوچ


 زندگی کے کسی بھی شعبہ ہائے کو دیکھاجائے ،کام کے طریقہ کار کو مختلف شعبہ ہائے میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ دھیان اسی شعبہ کے کام پر مرکوز ہو ، ہم کسی حکومتی ڈھانچہ کو دیکھیں تو اس میں کوئی سینٹ کا ممبر ،کوئی قومی اسمبلی


،کوئی صوبائی اسمبلی ،پھر کونسلر  ہے منتخب کیا جاتاہے ۔

اس طرح انتظامی حوالے سے ہر ایک شعبہ الگ الگ ہے کیوں کہ انکے کام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں مثلا کہیں نہیں دیکھا گیا کہ اچانک اسٹیٹ بینک یا کسی بینک میں جامعہ کے طلباء نے پڑھائی شروع کردی یا کسی بینک گورنر نے اشتہار دے دی کہ طلباء  کی داخل کیلے فارم جمع کرنے کا اعلان کیا جارہاہے ہاں اگر اعلان کیا جاتاہے تو بینک سے منسلک لوگوں کے بھرتی کیلے فارم جمع کرنے کا کہاجاتاہے ۔ 


کبھی محکمہ بی این اینڈ آر   کے سیکٹری نے اعلامیہ جاری نہیں کیا ہے کہ وہ ملک کے خارجی امور سنبھالیں گے ۔ 


پاکستان کو چھوڑ کر کسی  جمہوری ملک کے فوج نے  کبھی اعلان نہیں کیا ہے کہ آئندہ آرمی چیف وزارت اعظمی یا صدارت کا منصب سنبھالیں گے۔  



کبھی محکمہ تعلیم نے اعلامیہ جاری نہیں کیا ہے کہ وہ  ماہیگیروں کی بہبود کیلے نئے سمندری پالیسی بنا رہے ہیں ۔ اگر وہ اعلان کریں تو ہر ایک کو بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے ۔ کبھی سوچا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ یہ محکمہ ماہیگیر کا کام ہے ۔


انھیں چھوڑیں آپ نے اکثر یہ کہاوت سنا ہوگا کہ لوہارجانے انگار جانے مطلب وہ ان کا کام ہے انھیں کرنے دیں۔ اگر آپ لوہار کے بجائے ایک پولیس سپاہی کو یہ کام دیں گے تو اس کا م کا بیڑا غرق ہی کر کے چھوڑیں گے ۔


اگر کسی کو یقین نہیں ہے تو وہ پاکستان سے سبق سیکھیں فوج نے اپنا کام چھوڑ کر  ، عوامی نمائندے عوام کے نام پر فوج  لاتی ہے ،تعلیم ،واپڈا، صحت ،زراعت ،بی اینڈ آر  ،ٹھیکداری،صنعت ،پولٹری فارمنگ سمیت  سیاست ،سماجی کاموں ،مذہبی معاملات،حتی کہ  روڈ فٹ پاتھوں پر بھکاری فوج ہی کے مرضی سے بٹھا ئے جاتے ہیں تو اس ملک کا حال دنیا کے سامنے ہے ،کسی کو یقین نہیں ہے کہ یہ ملک بھی ہے یا نہیں ، عوام کو ملک چھوڑنے کیلےسمندر میں کود کر مرنا پسند ہے مگر پاکستان میں رہنا اس کو قبول نہیں ہے ۔ 


اگر ہم بحیثیت غلام  قوم  ہر معاملے میں پاکستان ہی کو کاپی کریں تو کیا انجام ٹھیک ہی ہوگا ہر گز نہیں ، اگر ہماری آزادی پسند تنظیمیں مسلح جہد کے ساتھ ساتھ یہ اعلان کریں کہ ہم امن بغیر خون بہائے  آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو لوگ اس کا ہنسی مذاق اڑائیں گے ، اور کہیں گے وہ مسلح آزادی پسند تنظیم کے بجائے غیر مسلح تنظیم ہے اور اپنا نام تبدیل کرلیں ،اس کی جگہ اگر سیاسی جماعت اعلان کرتا ہے کہ وہ امن سے بات نہیں کریں گے اور اسلح کے زور پر پاکستان سے لڑ کر اپنا آزادی چھین کر رہیں گے تو کیا یہ پر امن جماعت پارٹی تنظیم کہلائے گا ہر گز نہیں ۔ لوگ اسے مسلح کہیں  گے اور کہیں گے کہ اپنا نام تبدیل کریں  ۔


اگر وہ تنظیم ایسا نہیں کرتا تو یقینا وہ زوال پذیر ہوگا اسے لوگ چھوڑ دیں گے کیوں کہ لوگ مسلح ،غیر مسلح یا سماجی تنظیم حوالے اس کا حصہ بن کر ساتھ دے رہے تھے ۔ اگر انھوں نے مقصد ہی چھوڑ دیا ہے تو لوگ کیسے ساتھ رہیں گے یا انھیں مدد کریں گے ۔ 


اس حوالے سے ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کا وجود دیکھیں تو یہ شہید ملک ناز کی ریاستی غنڈوں کے ہاتھوں شہادت اور انکی ننھی بیٹی برمش کی آنسوؤں پوچنے اور مظلوم خواتین کی آواز بن کر عوام میں پذیرائی حاصل کی کہ وہ خواتین و حضرات کے ساتھ قابض ریاست کی ظلم بربریت برداشت نہیں کر رہی ہیں ، وہ ان ماوں کی آواز بن گئی جو سالوں سے اپنے لخت جگروں کا تصویر اٹھائے دردر ٹھوکر کھا رہی تھیں ۔ بل آخر بلوچ یکجہتی کمیٹی  ریاست کی جانب سے خواتین وحضرات  کو جبری لاپتہ کرنے سمیت انھیں جعلی مقابلوں میں ھلاک کرنے کےخلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز  کی طرح  مضبوط آواز بن  کر ابھری  ۔ وہ کیچ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکےلاپتہ افراد کے ماورائے عدالت قتل کو اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔  خواتین نے اسلام آباد میں وہ ریاستی تذلیل سے گزریں کہ سن کر کلیجہ پھٹ جاتاہے ۔ پھر خواتین نے ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں  کوئٹہ میں عوام کا سیلاب جمع کرنے میں کامیاب ہوگئیں

  اور انھیں اپنے اوپر ہونے والے داستان بارے بتاکر اسلام آباد کا کالا چہرہ دکھا کر  اس ازم کو دہرایا کہ وہ ریاست کی جانب سے اپنے پیاروں کی جعلی مقابلوں میں ھلاکت خصوصا خواتین کے ساتھ فوجی ظلم کبھی برداشت نہیں کریں گی۔ 


اگر کسی کو یاد ہو تو خون کے آنسوں بہانی والی  ماوں بیٹیوں نے اسلام آباد کے لانگ مارچ دھرنے اور کوئٹہ کے جلسہ عام جس میں لاکھوں لوگ شریک تھے وہ گواہ ہیں کہ انھوں نے کسی سیلاب کے متاثرہ خاندان کیلے چندے کی بات نہیں کی تھی ،حتی کہ اسلام آباد دھرنے میں ڈاکٹر ماہ رنگ نے اعلانیہ کہا تھاکہ بلوچ یکجہتی  کمیٹی کے نام پر ہم نہ چندہ کرتی ہیں نہ کسی کو اجازت ہے کہ وہ چندہ کریں ۔ 


لہذا  مشورہ ہے کہ بلوچ یکجہتی  کمیٹی سمیت تمام مسلح غیر مسلح اور دیگر سماجی تنظیمیں جس مقصد کیلے وجود میں لائی گئی ہیں انھیں اسی کام پر لگائیں وقت حالات کے مطابق انکے اندر جمہوری  انداز میں تبدیلی لائیں کسی ایک بھی فرد کو اختیار نہ دیں کہ وہ تانا شاہی کی طرح شاہ یا ملکہ بن کر  نہ چمٹے رہیں ۔ 


جیاں تک بات سیلاب متاثرین کی ہے سب کو ان سے ہمدردی ہے  ہم سب جانتے ہیں کہ قابض ریاست بلوچ کا ساحل وسائل لوٹنے کیلے انھیں لاپتہ اور جعلی مقابلوں میں قتل کرنے فوج کشی کیلے تو قدم قدم پر موجود ہے، مگر قدرتی آفات کی صورت میں امداد ریلف دینے کیلے انھیں نہ وقت ہے نہیں وہ چاہتے ہیں کہ فوج راولپنڈی جو لوگوں سے  وسائل  لوٹ رہاہے وہ کسی ایسے قوم کو دیں جن کا نہ زبان ،رستمورواج، کلچر اٹھنا بیٹھنا ،نہ تہذیب میل کھا تاہو ۔



ہم  حقیقی معنی  میں اپنے  عوام کا  فلاح چاہتے ہیں تو سیلاب کیلے الگ سماجی تنظیم بنائیں، جو لوگ بھی سامنے آئیں عوام ان کی کارکردگی دیکھ کر اپنا حصہ  ڈالیں گے ،اگر وہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عوام کے نام پر  اپنی خاندان  کیلے بینک بیلنس  بڑھانا چاہتے ہیں دبئی یورپ کا سیر سپاٹا ،شراب کباب شباب پر چندہ کی رقم لٹاتے ہیں  تو وہ انھیں مسترد کریں گے ،آج جدید ٹیکنالوجی ہے کوئی بھی چیز ایک دوسرے سے زیادہ دیر تک نہیں چھپ سکتا۔  


آپ صدق دل سے سب کی بھلائی کا سوچ کر   بسم اللہ کریں ،عوام ساتھ دینے کیلے تیار رہیں گے ۔ اگر آپ  ایسا نہیں کرتے معیار پر نہیں اترتے تو مسترد ہونے میں دیر نہیں کریں گے ،کیوں کہ کوئی بھی کسی کا شخصی غلام نہیں ہے جو ہر وقت اسی نا لائق نکھٹو شخص کا  گن گاتے رہیں جس طرح نما نہاد صحافی غرید ہ  فاروقی  صحافت چھوڑ کر فوج کا گن گاتی پھرتی ہیں یا جان اچکزئی سرفراز بگٹی جیسے بلوچ قاتل وزارت پر بیٹھ کر پاکستانی میٹرک پاس فوجی جنریلوں  کا گن گائیں گے۔ 


ہم سب  ہر لازم ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے تحریک کو چندہ معافیا کے رحم کرم پر نہ چھوڑیں ۔ اسے اسکا کام کرنے دیں ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post