جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5381 دن مکمل

 


جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5381 دن ہوگئے ۔ اظہار یکجحتی کرنے والوں میں پنجگور سے سیاسی کارکنان علیم شنبے بلوچ مجاہد بلوچ اختر بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجحتی کی۔

دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں  کہا ہے کہ قابض منصوبہ بندی کے تحت بلوچ آبادیوں پر اپریشن کا آغاز کر چُکا ہے۔

ریاست پاکستان نے بلوچستان میں اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے بلوچ نسل کُشی کو اور تیز کر دیا ہے ۔ اب قابض ریاست نا صرف بلوچوں کو کھلے عام قتل کرنا شروع کر دیا ہے  اپنے ان مکروہ عزائم کو جواز بخشنے کے لیے ایک منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے ۔

بلوچ آبادیوں پر بمباری کرنے کے لیئے جواز پیدا کرنا سب اسی پالیسی کے شا خسانے ہیں کہ اب بلوچ نسل کُشی کو تیز تر کر کے جہدوجہد کو کمزور کرنے کی سعی کرنا ہے۔  اپنے ان نسل کش پالیسیوں کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ دن تمپ سے دو نوجوان کو جبری لاپتہ کیا گیا ،جن میں روف ولد مراد محمد اور پیر بخش بلوچ کو پنجگور کے علاقوں سے اس کے علاوہ مستونگ قلات کوہلو ڈیرہ بگٹی بلوچستان ایسا کوئی جگہ یا علاقہ نہ ہے جہاں ان کی بربریت رکی ہوئی ہے ۔

انھوں نے کہاہے کہ سامراجی فورسز نے خضدار کے رہائشی بلوچ نوجوان کو شال سے اغوا کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستانی فورسز بلوچ قومی جد وجہد کی پذیراآئی سے گھبرا کر بلوچستان فرقہ ورایت مذہبی انتہا پسندی کو سامنے لارہی ہے ۔تاکہ بلوچ عوام قومی جد جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مذہبی اننتیا پسندی کے خلاف کارروائیوں کے بہانے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جا سکے ۔لیکن دنیا اس بات سے بخوبی با علم ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی تشکیل کو سامراجی پاکستان اور اس کے ادارے کی کارستانیاں رہی ہے۔ 

اب بلوچ آبادیوں پر آپریشن کی شدت میں اضافہ کیا جائیگا ۔بلوچ خون بے دریغ بہایا جاے گا ۔لیکن بارہا  نشاندہی کے باوجود انسانی حقوق کے علم بردار اداروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کی اس سنجیدہ انسانی المیہ کو یکسر نظر انداز کرنا مظلوم محکوم کے بابت ہمارے اجتماعی بے حسی کی نشاندہی کر رہی ہے ،جن کی وجہ سے پاکستان کے کوکھ سے جنم لینے والی یہ دہشتگردی نا صرف بلوچ عوام کے لیے صعوبتیں لا رہی ہے بلکہ اب یہ پوری دنیا میں پہہل کر تمام مذہب اقوام کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post