خضدار کے علاقے گریشہ سے گذشتہ دنوں خبر وائرل ہوئی کہ پچاس سالہ یونس نامی سرکاری سکول ٹیچر نےاپنے بھتیجے کا منگیتر اور بیوہ خاتون ، بسراں کی کمسن بچی کو اغوا کرکے تربت میں جبری شادی کرلی ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق بچی کمسن ہے اور یونس بچی کا رشتہ دار ہے انہوں نے بچی کے ماں بیوہ بسراں کو قائل کرلیا تھا کہ وہ بچی کو تعلیم حاصل کروانے کے لیے لے جا رہے ہیں ، لیکن تعلیم کے نام پر خاندان کو ورغلا کر بچی کو اغوا کرکے زبردستی شادی کرلی ۔
آج بچی کے ماں بسراں اور ماموں محمد عالم نے نال پولیس تھانہ میں ابتدائی رپورٹ درج کروالی اور بعد ازاں خضدار پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی کیا۔
متاثرہ خاندان کے مطابق کے مطابق جب وہ پریس کانفرنس کے لیے خضدار پریس کلب گئے تو سینئر صحافیوں نے کہا کہ اتنی اہم انسانی مسئلے پر آپ لوگوں نے اتنی دیر کیوں کردی ہے اور انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ۔
پریس کانفرنس لائیو چلانے کے بعد خضدار پریس کلب کے فیس بک سے پریس کانفرنس ڈلیٹ کردی گئی ہے۔
ریڈیو زرمبش کو ملنے والے اطلاعات کے مطابق اغوا کرنے والا گروہ علاقے اثر و رسوخ رکھتا ہے اور انہیں سرکاری حمایت یافتہ لوگوں کی مدد حاصل ہے جبکہ متاثرہ خاندان انتہائی غریب اور کمزور ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر دباؤ میں آکر خضدار پریس کلب نے ویڈیو ڈلیٹ کردی ہو گی۔
بچی کی ماں بسراں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میری بچی کی عمر چودہ سال ہے جبکہ میری بچی کا رشتہ یونس ہی کے بھتیجے سے طے ہوا تھا۔
اب میری بچی کو میری علم میں لائے بغیر (گریشہ سے) لے جاکر زبردستی شادی رچائی گئی ہے
بسراں نے اپنی وائرل ویڈیو میں کہہ رہی ہیں کہ “یونس نے مجھے کہا کہ لڑکے (یونس کا بھتیجا) اور بچی (بیوہ بسراں کی بچی) دونوں میرے فرزند ہیں، میرے آپ کے بچی کی باپ ہوں لہٰذا آپ مطمئن رہیں ۔ انہی باتوں سے میں نے دھوکہ کھائی اور تعلیم کے نام پر اپنی بچی یونس کے حوالے کی اور انہوں ایک معصوم کے ساتھ زبردستی شادی کرلی۔
انھوں نے مطالبہ کیاہے کہ انھیں انصاف فراہم کی جائے۔