سندھ، گلگت بلتستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیری عوام کے نام بلوچ یکجہتی کا خاص پیغام

 


شال بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سندھ، گلگت بلتستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے عوام کے نام جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ آج بلوچ قوم جن حالات کا سامنا کر رہی ہے اور جس طرح بلوچ قوم نے ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف یک مشت ہوتے ہوئے حکمرانوں کو چیلنج کیا ہے وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ پاکستان کے دیگر زی شعور لوگ اور مظلوم اقوام اس جدوجہد میں بلوچ قوم کا بھرپور ساتھ دیں۔

بیان میں کہا گیا ہےکہ دنیا کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ حکمران مظلوم عوام کو ہمیشہ غلام تصور کرتے ہیں ان کی نظر میں عام لوگ کیڑے مکوڑے جیسے ہیں جنہیں قتل کیا جائے یا روندا جائے انہیں جس طرح استحصال کا نشانہ بنایا جائیں مگر وہ خاموش رہ کر انہیں برداشت کرتے ہیں کیونکہ ظالم اور جابر کے خیال میں عام عوام انسان نہیں بلکہ وہ حکمرانوں کی غلامی اور انہیں کھلانے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن دنیا جہان میں آج جہاں کہیں بھی کوئی تبدیلی آئی ہے جہاں بھی ظالم اور جابر حکمرانوں کے رویے تبدیل ہوئے ہیں وہاں مظلوم اور باشعور اقوام کی جدوجہد نمایاں رہی ہے۔ 

جب تک ظالم جابر اور طاقت ور کے خلاف حقیقی عوامی جدوجہد نہیں ہوگی اور طاقتور اور ظالم کو یہ باور نہیں کرایا جائے گا کہ مظلوم اور باشعور لوگ مزید اس کی غلامی اور تشدد برداشت نہیں کرینگے اس وقت تک ریاست کے جابر حکمران اپنے رویے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہیں لاتے۔ دنیا جہاں کی تاریخ یہی سبق دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف جدوجہد سے ہی مظلوم اور باشعور اقوام کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ مظلوم اقوام کی ظالم اور جابر کے خلاف جدوجہد کی تاریخ ہے اور آج بھی یہ جدوجہد دنیا کے تمام کونوں میں جاری ہے۔ دیگر جابر حکمرانوں کی طرح پاکستان میں بھی ایک جابر اور ظالم طبقہ حکمران بنا بیٹھا ہوا ہے جس کی نظر میں عام شہری کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں وہ انسان تصور نہیں کرتے اس لیے انہیں مارنا ، قتل کرنا، اغوا کرنا اور اجتماعی قبروں میں دفنانا ریاست کیلئے نارمل سی بات ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہاہے کہ پاکستان اپنے وجود کے پہلے دن سے ہی مظلوم قوموں کے حقوق دینے کے خلاف سرگرم رہی ہے اس لیے پہلے دن سے ریاست نے بلوچوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو عمل میں لایا ہے۔ 1948 سے لیکر 2024 تک ریاست کا بلوچستان کے حوالے سے رویہ ہمیشہ سے جابر اور ظالمانہ رہا ہے۔جبری گمشدگیوں کے واقعات آج کے نہیں بلکہ 1971 میں بھی بلوچ نوجوانوں کی جبر ی گمشدگی اور انہیں قتل کرنے کا ریاستی حربہ موجود رہا ہے۔

 ریاست پہلے دن سے بلوچوں کے خلاف جنگ میں ہے۔ 1972 میں عوام کی بنائی گئی نیپ کی حکومت کو فوج نے محض اس لیے گرایا کیونکہ انہیں بلوچستان میں ایک اور آپریشن کی شروعات کرنی تھی اسی طرح 2000 کے عشرے میں نواب خیر بخش مری اور دیگر کی گرفتاری اور بعدازاں جبری گمشدگیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا جنہیں بعدازاں مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں پھینک دینے کی پالیسی اور اب نام نہاد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے نام پر جبری طور پر لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا یا سینکڑوں لوگوں کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنانے کی ریاستی پالیسی ہو ریاست نے پہلے دن سے بلوچستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے اور یہ جنگ عام بلوچوں کے خلاف اب بھی جاری ہے۔ 

ایک فیڈریشن جو تمام صوبوں کو خودمختیاری دینے کی بات کرتی ہے اسی کے دارالحکومت میں بلوچ مظاہرین کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور جب وہ اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان بزرگ، ماؤں اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنانےکے بعد جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں زبردستی اسلام آباد سے ڈی پورٹ کرنےکی کوشش ہوتی ہے۔ یعنی ریاست کے نظرمیں بلوچ پاکستان کے شہری نہیں ہیں اور وہ اس ریاست کا حصہ نہیں ہیں۔ جس طرح بلوچوں کے ساتھ ریاست نے اپنا رویہ رکھا ہوا ہے وہ ایک جابر اور ظالم طبقے کا مظلوم اقوام کے خلاف جارہانہ رویہ ہے۔ گوکہ بلوچ اس ریاست کے بدترین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔

 لیکن اس وقت پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ریاستی فورسز یہی رویہ روا رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ سے لیکر خیبر پختون خوا تک پنجاب سے گلگت بلتستان تک ریاست ہر مظلوم اور باشعور آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں ملک کے نام نہاد وزیرا عظم نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ ہمدریاں رکھنے والے افراد کو مسلح ہونے کی جو تجویز دی ہے اس سے ریاستی حکمران طبقے کی سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہےکہ ریاست اس وقت تک اپنے رویے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہیں لائے گی جب تک ریاستی جابرانہ حکمت عملیوں اور پالیسیوں کے خلاف منظم جدوجہد نہیں ہوگی۔ آج بلوچ قوم جن حالات کا سامنا کر رہی ہے اور جس طرح بلوچ قوم نے ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف یک مشت ہوتے ہوئے حکمرانوں کو چیلنج کیا ہے وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ پاکستان کے دیگر زی شعور لوگ اور مظلوم اقوام اس جدوجہد میں بلوچ قوم کا بھرپور ساتھ دیں۔ کیونکہ یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہو سکتا کہ بلوچ قوم کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیں اور دیگر علاقوں میں امن اور سکون ہو۔ جبری گمشدگیوں پر مبنی جو ریاستی پالیسی بلوچستان میں شروع ہوئی تھی اب وہ سندھ، خیبر پختون خوا سے ہوکر پنجاب تک پہنچ چکی ہے اور یہاں سے بھی لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ 


ترجمان کے بیان مطابق اس سے پہلے کہ پنجاب سے بھی تشدد اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا شروع ہو اور یہاں بھی لوگوں کو اٹھانے کے بعد فیک انکاؤنٹر میں قتل کرنے کی ریاستی پالیسی کا آغاز ہو لوگوں کو بلوچ جدوجہد کا ساتھ دینا چاہیے جو اس ریاستی قتل عام اور بربریت کے خلاف اس وقت پورے بلوچ قوم میں پھیل چکی ہے۔ مکران سے لیکر کراچی اور نصیر آباد سے ڈیرہ مراد جمالی اور تونسہ تک بلوچستان کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جو آج ریاستی قتل عام اور دہشتگردی کے خلاف سراپا احتجاج نہیں ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان کے تمام باشعور لوگوں کو بلوچ قوم کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ مرکز میں بیٹھے ریاستی حکمران طبقے کو ایک واضح پیغام دیا جائے کہ مظلوم اقوام مزید ریاستی قتل عام برداشت نہیں کرینگے۔ بلوچوں کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے خلاف کیچ سے شروع ہونے والا موومنٹ اب اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں موجود ہے۔ سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا سمیت تمام لوگوں سے اس جدوجہد کو اخلاقی ، سیاسی اور ہر طرح کی مدد کرنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ بلوچ قوم کی نسل کشی اور دیگر مظلوم اقوام کے خلاف ریاستی جبر کا خاتمہ ہو سکیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post