حماس نے اسرائیل پر باضابطہ حملوں کا آغاز کردیا ،فلسطین نے مزید 2000 راکٹ داغ دیے،اسرائیل کی جوابی کارروائی




فلسطینی عسکریت پسند اسلامی گروپ حماس نے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے ، حماس نے غیر معمولی طور پر  ہزاروں  راکٹ اسرائیلی آبادی والے علاقوں میں فائر کر کے  اپنے جنگجو اسرائیلی حدود میں بھیج دیے ہیں ۔


حماس کے ملٹری کمانڈر محمد دائف نے ہفتے کو میڈیا سے خطاب میں اسرائیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے " آپریشن الاقصی اسٹورم" کا نام دیا ہے، آپریشن کے دائرہ کار میں غزہ کی پٹی کے جنوب مشرق میں اسرائیل کی کریم ابو سلیم سرحدی چوکی اور قریب کے چوکیوں پر قبضے کا بھی دعویٰ کیا ہے - 


اسرائیلی وزیر دفاع یو گیلنٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے ارد گرد 80 کیلو میٹر کے دائرے میں علاقے کو فوجی زون قرار دے دیا اور کہا کہ حماس نے بہت بڑی غلطی کی ہے - 

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاھو نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور انہوں نے سیکورٹی حالات کے پیش نظر دفاعی امور کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے -


 اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔اس سے قبل اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی جانب درجنوں راکٹ فائر کیے گئے ہیں جس میں کم از کم ایک خاتون کی ہلاکت ہوئی ہے۔ جبکہ حماس کے درجنوں مسلح افراد جنوبی اسرائیل میں داخل ہوگئے ہیں۔


پورے جنوبی اسرائیل میں سائرن بج رہے ہیں جسے سنیچر کی صبح تل ابیب کے بڑے علاقے میں سنا جا سکتا تھا۔اسرائیل کی میگن ڈیوڈ ایڈم ریسکیو ایجنسی کے مطابق دو دیگر افراد اس میں زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔


فلسطینی عسکریت پسند اسلامی گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔


خبر رساں ادارے روئٹرز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فائر فائٹرز اشکیلون شہر میں آگ بجھانے میں لگے ہیں جبکہ جلی ہوئی گاڑیوں سے دھویں کے گہرے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ راکٹ حملوں کے پیش نظر اسرائیل کے سکیورٹی سربراہان ملاقات کرنے والے ہیں۔اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ‘دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد’ اسرائیلی علاقے میں گھس آئی ہے اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔


’حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ 5000 کے علاوہ مزید 2000 راکٹ فائر کیے گئے جن کا حماس کے چیف کمانڈر نے اس آپریشن کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔


آئی ڈی ایف کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے کہا ہے کہ حماس کو جنگ کے اعلان کے بعد واقعات کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہوگی۔ان کے ایک ٹویٹ میں کہا گيا ہے کہ ‘آئی ڈی ایف نے حالت جنگ میں الرٹ کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ گھنٹے میں غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹوں سے شدید فائرنگ شروع ہوئی اور دہشت گرد متعدد مختلف مقامات سے اسرائیلی حدود میں گھس آئے ہیں۔’جنوب اور مرکز کے رہائشیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محفوظ علاقوں کے قریب اور غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقے میں ہوں۔ اس وقت، چیف آف سٹاف صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور انھوں نے آئی ڈی ایف کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے منصوبوں کی منظوری دی ہے۔


 انڈیا میں اسرائیل کے سفیر نور گیلن نے ٹویٹ کیا کہ ‘اسرائیل یہودیوں کی تعطیل کے دوران غزہ کی جانب سے مشترکہ حملے کی زد میں ہے۔ حماس کے دہشت گردوں کی راکٹ اور زمینی دراندازی دونوں طرف سے حملہ ہے۔ صورت حال سادہ نہیں ہے لیکن اسرائیل غالب آئے گا۔


دی گارڈین کے مطابق غزہ میں حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے جہاں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یہودی زائرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔


 انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی نئی کوششوں کا ‘یہ صرف پہلا مرحلہ ہے۔انھوں نے کہا: ‘ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے۔۔۔ بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں ہر جگہ مسلمانوں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔


واضح رہے کہ سنہ 2007 میں جب سے اسلام پسند گروپ نے 42 مربع کلومیٹر کی پٹی پر قبضہ کیا ہے اس علاقے کے حکمرانوں اور اس کے دیگر فعال دھڑوں کے خلاف چار جنگیں اور کئی چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور اس چیز نے غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔اسرائیل کی ناکہ بندی کے بعد سے غزہ میں لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی بھی نہیں ہے، اور صحت کی دیکھ بھال، بجلی، صفائی اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post