بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں میں تیزی، قتل و غارت گری، ڈیتھ اسکواڈز کی مزید فعالیت، جعلی مقابلوں اور مسخ شدہ نعشوں کے پھینکنے میں پیدا ہونے والے شدت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چائنا اور دیگر عالمی طاقتوں کی مدت و کمک سے بلوچستان میں اپنے مظالم میں اضافہ کرتا جا رہا ہے، عالمی ادارے مختلف ریاستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر ان واقعات کو نظرانداز کر رہے ہیں جس سے ان پر مظلوم اقوام کا بھروسہ دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے اور انکی اہلیت اب محض ایک فسانہ بنتا جا رہا ہے، جبکہ عالمی طاقتیں اپنے چھوٹے بڑھے مفادات کیلئے ریاست پاکستان سے ساز باز میں مصروف ہیں۔ جس سے خطے اور بلوچستان میں ریاستی دہشتگردانہ کاروائیاں شدت پکڑتے جا رہے ہیں اور بہت ساری ریاستیں اپنے معاشی و سیاسی مفادات کیلئے ان دہشتگردانہ کاروائیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ماہ اگست میں سیکورٹی فورسز نے سینکڑوں افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا اور کچھ شدید تشدد و ذہنی اذیت کے بعد چھوڑ دیے گئے جبکہ کئی افراد اس وقت بھی ریاستی زندان میں قید ہیں، اسی طرح فاروق زہری کو ایک سال تک غیرقانونی حراست میں رکھ کر شدید تشدد کے بعد قتل کرکے ان کی مسخ شدہ نعش پھینک دی گئی جبکہ نعش کو بھی تحویل میں رکھ کر خاندان کو شدید اذیت سے گزارہ گیا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ نوجوانوں کی طرح ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت اب بلوچ خواتین اور بچوں کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نور خاتون اور ان کے دو چھوٹے بچوں کو شال سے اغوا کرنا اور چار دن تک شدید اذیت سے دوچار کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت دشمن ریاست بلوچستان میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچ نسل کشی کے مختلف طریقوں پر عمل پیرا ریاست نے جعلی مقابلوں کی پالیسی کو بھی جاری رکھا ہوا ہے اور خاران میں 8 افراد کو جعلی مقابلوں میں نشانہ بناکر قتل کیا گیا اور سیاسی ورکرز کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ جبکہ فوجی آپریشنز، لوگوں کا معاشی قتل عام، ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے بلوچستان میں خانہ جنگی کی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور بلوچ جہدکاروں کے لواحقین کو نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ریاستی پالیسیوں میں بلوچ طلباء کو خاص نشانہ بنایاجاتا ہے تاکہ نوجوان طبقے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا سکیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں عالمی طاقتوں اور اداروں کے دہرا معیار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کچھ طاقتیں دنیا بھر میں انسانی حقوق اور مظلوموں کی آواز بننے کا دعویدار ہیں وہی دوسری جانب یہی ریاستیں پاکستان کو معاشی اور فوجی مدت دے کر بلوچ جیسے مظلوم اقوام کے خلاف ریاستی جبر کو ایندھن فراہم کرتے ہیں جبکہ انسانی حقوق کے اداروں کا رویہ بھی اسی طرح دہرے معیار پر قائم ہے، جہاں وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے بلوچ نسل کشی اور ریاستی مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک قابض اور جابر ریاست کی پشت پناہی اور معاشی مدت کرنے کے بجائے مظلوم بلوچ اقوام کا ساتھ دیں جو اپنے بقاء کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔