جیکب آباد( آئی این پی ) جیکب آباد میں 5 سال کے دوران 31 بچیوں و خواتین سے اجتماعی زیادتی کے واقعات رپورٹ، صرف 4 واقعات میں ملزمان کی ڈی این اے رپورٹ میچ، 13 واقعات کے ملزمان پر درج مقدمات قبائلی تصفیہ کے بعد خارج کردئیے گئے۔تفصیلات کے مطابق جیکب آباد ضلع میں 2018 سے 2023 تک 5 سال کے دوران 31 بچیوں و خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 29 واقعات اجتماعی زیادتی کے رپورٹ ہوئے ہیں۔ حاصل کی گئی اعدادو شمار کے مطابق سال 2018 میں زیادتی کے 6 واقعات رپورٹ کئے گئے جن میں سے 4 واقعات اجتماعی زیادتی کے تھے، 2019 میں زیادتی کے 5 واقعات ہوئے جن میں سے 3 واقعات اجتماعی زیادتی کے تھے، 2020 میں خواتین کے ساتھ 7 زیادتی کے واقعات پیش ہوئے جن میں سے 6 واقعات اجتماعی زیادتی رپورٹ ہوئے، 2021 میں بھی 7 زیادتی کے واقعات ہوئے جن میں سے 6 اجتماعی زیادتی کے تھے۔ سال 2022 میں 4 زیادتی کے واقعات رپورٹ کئے گئے جبکہ رواں سال 2023 میں بھی 2 زیادتی کے واقعات ہوئے ہیں، معصوم بچیوں اور خواتین سے ہونے والے زیادتی کے واقعات میں سے صرف 4 واقعات میں ملوث ملزمان کی ڈی این اے رپورٹ میچ ہوئی جبکہ 13 واقعات میں ملوث ملزمان پر درج مقدمات قبائلی اثر رسوخ رکھنے اور قبائلی تصفیہ کے بعد خارج کردئیے گئے، جیکب آباد شہر میں اجتماعی ذیادتی کا شکار ہونے والی ایک 14 سالہ بچی نے ایک بچے کو جنم دیا تھا جو کافی عرصہ تک اپنے ماں کے ساتھ انصاف کے لیے در در ٹھوکریں کھانے کے بعد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے جیکب آباد شہر چھوڑ کر گمنامی کی زندگی میں چلی گئی، علاوہ ازیں رواں سال دلمراد تھانہ کی حدود میں واقع گاوں آصف کھوسہ میں 4 ملزمان نے ایک خاتون کو نشہ دیکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جو دو ہفتوں تک اسپتال میں داخل رہنے کے بعد فوت ہوگئی اس واقعے میں بھی ملوث کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر عورت ایکشن فورم کی رہنما حسین مسرت نے بتایا کہ پولیس کی نااہلی کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے 60 فیصد شواہد ضائع ہوجاتے ہیں جس کا فائدہ ملزمان کو جاتا ہے انہوں نے کہا کہ خواتین سے اجتماعی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کے وقت ناتجربے کار ڈاکٹر اور پولیس کا عملہ شواہد اکٹھے کرنے میں ناکام ثابت ہورہا ہے ایسے واقعات کی تحقیقات کے لیے تجربے کار خاتون میڈیکو لیگل آفیسر مقرر کی جائیں تو کافی حد تک ملزمان کو گرفتار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ مظفر علی رند نے بتایا کہ 5 سال کے دوران خواتین کے ساتھ 31 اجتماعی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور کئی واقعات تو رپورٹ تک نہیں ہوتے، انہوں نے کہا کہ پولیس اور محکمہ صحت کے ملازمین کی ملی بھگت سے کئی واقعات کے ڈی این اے کے نمونے بھی تبدیل کردئیے جاتے ہیں، زیادتی کے واقعے کے بعد پولیس کو 24 گھنٹوں کے اندر ڈی این اے کے نمونے لینے ہوتے ہیں اور آئندہ 72 گھنٹوں تک وہ نمونے لیبارٹری تک پہنچانا ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اکثر واقعات کی درست رپورٹ نہیں ملتی۔