بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے لگائے گئے کیمپ کو 5146 دن مکمل



شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5146 دن ہوگئے۔


اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خاران سے سیاسی اور سماجی کارکنان وسیم بلوچ نزیر بلوچ داد محمد بلوچ اور دیگر کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


 اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے  کہا ہے کہ شہداء بلوچستان کی بے دریغ قربانیوں مستقل مزاجی کے حامل سیاسی جماعتوں کی انھتک جمہوری جدجہد سفارتی کاوشوں کی بدولت بلوچ قومی تحریک تاریخ کے ایک نازک مرحلے تک پہنچ چکا ہے اور اس اہم ترین موڑ پر خطہ اور دنیا بھر میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ 

 

دوسری جانب بلوچ قومی تحریک کو قابو میں کرنے ، اپنے قبضہ گیرانہ اور استحصالی عزائم  کو دوام دینے کیلے   نسل کشی کی  کاروائیوں کے دائرہ کار اور شدت میں اضافہ کیا گیا ہے۔


 انھوں نے کہاہے کہ بلوچ کو بلاتفریق کچلنے کے لئے مقبوضہ بلوچستان کے طول عرض میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے کوہ سلیمان ڈیرہ بگٹی کوہلو بارکھان ،کوہستان مری سبی نصیرآباد مشکے جھاو آواران ، رخشان اور مکران بھر میں بلوچ نسل کشی زوروں پر ہے۔ 


ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ 21 صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق کسی قوم کو جبرا اغوا کرکے عقوبت خانوں میں نہیں رکھا جا سکتا ہے، پاکستانی آئین و قانون اور نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے مفاداتی سیاست میں اندھے حکومت بلوچستان کے طول و عرض میں نہتے سیاسی کارکنوں اور معصوم عوام کے خون سے ہاتھ صاف کرکے قتل غارت گری کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ جس پر سوچنا وہ محال سمجھتے ہیں۔


انھوں نے کہاہے کہ  بلوچ  نسل کشی اور خونی آپریشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بلوچستان کو چاروں سے  اطراف بلوچ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہم پہلے بھی بلوچ عوام کو آگاہ کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال رکہنے کی خاطر بلوچستان میں خونی کاروائیوں میں شدت لائے گا۔ بالکل اسی طرح پوری بلوچستان میں نہ رکنے والی بلوچ نسل کشی میں زیادہ تیزی لائی گئی ہے ۔ 


انھوں نے کہاہے کہ آئندہ بھی کوہلو سے مکران تک یکساں فوجی آپریشن کرنے کیلے  پاکستان اپنے نوآبادیاتی ریاست کو برقرار رکھنے کی خاطر نئے نگران حکومت کو برقرار رکہنے کے لئے انہی کے ذریعے بلوچستان کے نہتے عوام پر ظلم کے بازار مزید گرم کیا جائے گا۔ پہلے تو کسی سیاسی ورکر کو اٹھا لیا جاتا تھا اب وہ خاندان کے کسی فرد کو بھی جبری لاپتہ کیا جاتا ہے -

Post a Comment

Previous Post Next Post