شال :بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام شال میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں بلوچ سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور نوجوانوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین کے شرکاء سے سیاسی و جبری گمشدگیوں کے شکار افراد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات نے سنگین بحران جنم دیا ہے اور یہاں بچے بوڑھے نوجوان کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ سالم کو اس لیے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے لاپتہ کزن بیبگر کیلئے آواز اٹھائی اور انصاف کا راستہ اپنایا۔
انھوں نے کہاکہ سالم بلوچ کو ریاست اُن لوگوں کیلئے ایک مثال بنا دینا چاہتا ہے جو اپنے رشتہ داروں کیلئے احتجاج کرتے ہیں اور اُن کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بلوچوں کیلئے قانون کا راستہ اختیار کرنا بھی جرم بنا دیا ہے اور جو لوگ قانون کا راستہ اختیار کرکے اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں انہیں گمشدگی کا سامنا ہوتا ہے یا اُنہیں فیک انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غائب کر دیا جاتا ہے۔
مقررین نے کہاکہ بلوچستان میں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والوں کیلئے ریاست قہر برپا کر رہی ہے اور ریاست کے تمام ادارے بشمول سیاسی جماعتیں ان تمام مظالم پر خاموش ہیں اور میڈیا ان مظالم کو ہمیشہ سے جواز فراہم کرتا رہتا ہے۔
شرکاء نے کہا کہ بلوچستان میں حالات ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ اب خاندان اپنے پیاروں کیلئے آواز اٹھانے پر بھی خطرہ محسوس کر رہے ہیں، اور اپنے پیاروں کی گمشدگی پر بھی خاموش بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں دباؤ دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائے گا تو انہیں بھی اس جبر اور وحشت کا سامنا ہوگا جو سالم کو سامنا ہے۔
مظاہرین نے سالم سمیت بلوچستان بھر میں لاپتہ طالب علموں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالات ایسے بنائے گئے اور طالب علموں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے نتائج ریاست کے حق میں کسی بھی طرح نہیں نکلیں گے۔