وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی
دین بلوچ نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ میں لکھاہے کہ بولان سے بلوچ خواتین کی
رہائی تنظیموں، پارٹیوں اور سخت عوامی ردعمل کی وجہ سےممکن ہوا، لیکن سوال یہ ہےکہ خواتین کو
کس جرم میں کس قانون کے تحت اٹھایا گیا تھا؟ انہیں ہراساں کرکے انکی عزت نفس کو مجروح کیا گیا، اس کی ذمہدار ریاستی ادارے
ہیں اور انہیں جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں آج تین بجےان خواتین کی غیرقانونی حراست اور سی ٹی ڈی کی جھوٹے مقدمات و انکاؤنٹر اورجبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرہ ہوگی۔
امید کرتے ہیں کہ بھرپور عوامی
حمایت ساتھ ہوگی۔
دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء آمنہ بلوچ نے کہا ہےکہ بولان سے جبری لاپتہ خواتین اور بچوں کی بازیابی کے باوجود آج کراچی میں مظاہرہ ہوگا ۔
انھوں نے کہاہے کہ کس قانون کے
تحت بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتاہے آخر کیوں ہماری بلوچ خواتین کو اتنے دن حبس بے جا میں رکھا گیا؟