سی ٹی ڈی کےجرائم میں ہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بی وائی سی

شال ( اسٹاف رپورٹر سے ) بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سانحہ مستونگ کو سفاکیت کی انتہا قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی ٹی ڈی کے جرائم میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے اور یہ سی ٹی ڈی بلوچ قوم کی قتل عام میں شدت لانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ گزشتہ رات مستونگ کے علاقے کلی شادی خان میں ڈگری کالج مستونگ کے سابق پرنسپل کے گھر پر سی ٹی ڈی نے درنددگی کی انتہا کردی، گھر کی چادروچار دیواری کی پامالی کے ساتھ گھر میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے سلمان اور صلاح الدین جاں بحق جبکہ پروفیسر صالح شاد، بزرگ گل محمد زخمی ہوئے جنہیں ایڈوکیٹ عطاء اللہ سمیت گھر کے چھ افراد کے ہمراہ زخمی حالات میں لاپتہ کیا گیا۔ جبکہ آج انہیں زخمی حالات میں ہتکھڑیاں لگاکر سول اسپتال کوئٹہ میں لایا گیا۔ یہ کسی بھی طرح کوئی قانونی کارروائی نہیں بلکہ غیرقانونی اور درندگی کی اعلیٰ مثال ہے۔ ترجمان نے کہا کہ جس دن سے سی ٹی ڈی کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے ، اس دن سے بلوچستان میں ماوارئے عدالت قتل عام میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں اب تک درجنوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے جس میں پہلے سے ریاستی طویل میں زیرحراست افراد بھی شامل ہیں۔ اگر سی ٹی ڈی کے جرائم کو روکا نہیں کیا گیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی قتل عام میں مزید اضافہ ہوگا جس سے بلوچستان کے حالات مزید ابتر ہونگے۔ انھوں نے کہاکہ مستونگ کا واقعہ سی ٹی ڈی کے جرائم کی ایک اور واضح مثال ہے۔ دو دن پہلے ایسے ہی ایک واقعے میں عنایت اللہ غبزئی کی لاش سول اسپتال پہنچائی گئی، کچھ دن قبل ایسے ہی ایک چھاپے کے دوران خاران میں دو بھائیوں کو قتل کیا گیا اور آج مستونگ میں اس واقعے سے سی ٹی ڈی نے قتل عام کا اعلان کر دیا ہے۔ ترجمان نے عدلیہ، سیاسی پارٹیوں اور دیگر حکومتی اداروں کو زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے جرائم کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو بلوچستان میں ہر طرح کے حالات کے زمہ داری انہی اداروں پر عائد ہوگی۔ بلوچ قوم اپنے لوگوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہے گی۔ انھوں عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ سیکورٹی فورسز کے جرائم کے خلاف سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں ورنہ آج پروفیسر صالح ہے کل آپ کا گھر بھی اس مظالم کا نشانہ بن سکتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post