کوئٹہ (رپورٹ : بی بی سی) فوجی حکام بلوچ نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ اپنائیں لیکن جب تک ریاستی ادارے مثبت انداز نہیں اپنائے گے تو اس وقت تک بہت مشکل ہے۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ بہت ساری چیزیں ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں۔ بلوچ طالب علم بتاتے ہیں کہ انھیں بعض اوقات سکیورٹی فورسز کے کیمپوں میں بلایا جاتا ہے، انھیں موٹیویٹ کیا جاتا ہے اور حتیٰ کہ لیپ ٹاپ اور سکالر شپس بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔مگر یہ سب ناکافی ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے صوبہ بلوچستان میں شورش کے خاتمے اور عسکریت پسند گروہوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کرنے اور انھیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ ان اقدامات میں اندازاً ایک دہائی قبل صوبے کی دکانوں اور سٹالز پر بلوچ قوم پرست رہنماﺅں کی تصویروں اور قوم پرستی سے متعلق لٹریچر کی نشاندہی کر کے قبضے میں لینا تو کبھی اعلیٰ فوجی حکام کی جانب سے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نوجوانوں سے براہ راست رابطوں کا سلسلہ شروع کرنا شامل ہیں۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں اور مبصرین کی رائے میں گذشتہ تین چار برسوں سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں نہ صرف عسکریت پسندی کے رجحان میں اضافہ سامنے آیا بلکہ اس دوران جو خودکش حملے کیے گئے ان میں حصہ لینے والوں کی بڑی تعداد جدید تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کی وین پر ہونے والے خودکش دھماکے کی ہے جو شاری بلوچ نامی نوجوان بلوچ خاتون حملہ آور نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس حملے میں چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے چند برس قبل کراچی سٹاک ایکسچینج حملے میں بھی نوجوان افراد ملوث تھے۔ تاہم بلوچستان میں شورش کو سرکاری حکام ایک بیرونی سازش قرار دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان بشمول بلوچوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کا عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونے کے عوامل پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ حکومتی و سکیورٹی حکام کی جانب سے نوجوانوں کو اس سب سے دور رکھنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں
