بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 4658 ویں دن جاری رہا -
اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ کا دورہ کیا -
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عید ایک خوشیوں اور مسرتوں سے بھرا اسلامی مذہبی ثقافتی تہوار ہے، عید کے روز سینکڑوں ہزاروں میل دور رہنے والے گھرانوں کے افراد اپنے پیاروں سے آکر ملتے اور ایک دوسرے کو محبت کے لیے گلے لگاتے ہیں اس تہوار پر حقیقی خوشی بچھڑوں کے ملنے اور خاندان کے تمام افراد ایک جگہ اکٹھے ہونے اور مل کر تہوار منانے سے خوشی ملتی ہے لیکن گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بلوچ قوم نے عید کی خوشیوں میں ماند پڑ گئی ہے اب یہ تہوار خوشیوں کے برعکس اپنے پیاروں کے جبری اغوا تشدد ذہنی ٹارچر کی وجہ سے ماؤ بہنوں اور بیویاں اس ناقابل بیان زہنی اور روحانی کرب غم اور بے کراری کو بڑھاتا ہیں-
انہوں نے کہا کہ عید کے دن پیاروں کے جدائی کے زخم مزید ہرے اور تازہ ہوجاتے ہیں، غم اور کرب سے بھری پرنم آنکھیں اب پتھرائی گئی ہے یہ کہانی ان بلوچ خاندانوں کی ہے جن کے پیاروں کو ریاستی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دوران آپریشن کاروائیاں یا گھروں سے بسوں سے تعلیمی اداروں چلتے راہ سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے ان میں سے ہزاروں لاپتہ بلوچوں کو خفیہ حراستی ٹارچر سیلوں سی ٹی ڈی، ایف سی میں سفاکانہ تشدد کے زریعے شہید کر کے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پہنکا جا چکا ہے، اس سلسلے میں بلوچ کیسے عید منائیں اس سلسلے میں متاثرہ لواحقین اور چشمہ دید مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ لاپتہ بلوچوں کو گن پوائنٹ پر فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیا-
انکا کہنا تھا کہ جس طرح کل لاہور میں نمل یونیورسٹی کے طالب علم بیبگر بلوچ کو دن دہاڑے گاڑی میں زبردستی اٹھا کر لے جارہے اس کو پوری دنیا نے دیکھا بعد میں یہ لوگ لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں لحاظہ ہر سال کے دونوں عیدوں پر اس عید کو بھی بلوچ سادگی سے منائے اور عید کے دن وی بی ایم پی کے جانب سے لاپتہ افراد کی غم میں پریس کلب کویٹہ کے سامنے سے لاپتہ افراد کی لواحقین کے ساتھ اظہار یکجھتی کے لیے ایک ریلی نکالی جائے گی جس میں تمام پارٹیوں طلباء تنظیموں وکلاء برادری ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس غم میں بھرپور شرکت کریں۔