افغانستان کے وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں جمعہ کو سنی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے رپورٹ کے مطابق رمضان کے آخری دو ہفتوں میں ہونے والے مہلک بم دھماکوں کی ایک لہر نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان حملوں میں سے کچھ کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ اسلامک اسٹیٹ گروپ نے کیا ہے جبکہ ان دھماکوں میں درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
احمد نامی ایک شہری نے اے ‘ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کے وقت بہت سے نمازی ‘خلیفہ صاحب’ مسجد میں موجود تھے۔
علاقے کے ایک رہائشی محمد صابر نے بتایا کہ اس نے دھماکے کے بعد لوگوں کو ایمبولینسوں میں لے جاتے ہوئے دیکھا جبکہ دھماکے کی شدت سے متعلق اس کا کہنا تھا کہ دھماکا اتنا زوردار تھا مجھے لگا جیسے میرے کان کے پردے پھٹ گئے ہیں۔
خون میں لت پت زخمیوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے کابل کے مرکز میں واقع ایک ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ طالبان جنگجوؤں نے صحافیوں کو ہسپتال میں داخل ہونے سے روک دیا۔
وزارت داخلہ کے نائب ترجمان بسم اللہ حبیب نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکا نماز جمعہ کے دو گھنٹے بعد اس وقت ہوا جب نمازی عبادات میں مصروف تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکے میں کم از کم 15 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
جمعے کا دھماکا افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے عید الفطر سے قبل ایک پیغام میں ملک کی سیکیورٹی صورتحال کی تعریف کرنے کے چند گھنٹے بعد ہوا ہے۔
اپنے پیغام میں انہوں نے حالیہ بم دھماکوں کا کوئی ذکر نہیں کیا، تاہم، انہوں نے کہا کہ افغانستان ‘ایک مضبوط اسلامی اور قومی فوج’ کے ساتھ ساتھ ‘ایک مضبوط انٹیلی جنس تنظیم’ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
کئی حالیہ بم دھماکوں میں ملک کی شیعہ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن جمعہ کو ہونے والا دھماکا سنی مسلک کی ایک مسجد میں ہوا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی افغانستان کے شہر مزار شریف میں دو منی بسوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 9 افراد ہلاک ہو گئے تھے