اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت اور اس کی افواج کے فوری انخلا سے متعلق ایک قرار داد منظور کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے بلائے گئے جنرل اسمبلی سیشن میں اس قرارداد کے حق میں جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 141 رکن ممالک نے ووٹ کیا ہے۔
اس ووٹ سے قبل اقوامِ متحدہ میں یوکرین کے سفیر سرجی کسلٹسیا نے کہا کہ ’روس نے یوکرین سے موجود ہونے کا حق چھین لیا ہے۔
روسی سفیر ویسیلی نیبنزیا کا کہنا تھا کہ روس مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تنازع حل کروانا چاہتا ہے اور انھوں نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ ’کھلی اور مذموم دھمکیاں‘ دے رہے ہیں تاکہ ممالک اس قرار داد پر ووٹ دے سکیں۔
یہ 1997 کے بعد اسمبلی کی پہلی ہنگامی میٹنگ تھی۔
اجلاس میں ماسکو سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر یوکرین سے اپنی تمام فوج واپس بلالے۔ مبصرین کے مطابق، اس اقدام کا مقصد روس کو سیاسی طور پرتنہا کرنا ہے۔
193 ارکان پر مشتمل ادارے میں سے قرارداد کو 141 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے اس قرار دار پر ووٹ دینے سے گریز کیا جس میں روس کی مذمت کی گئی اور فوری طور پر یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرار داد کی منظوری کے ساتھ ہی مندوبین نے کرسیوں سے اٹھ کر تالیاں بجائیں۔
جنرل اسمبلی کے اس ہنگامی اجلاس میں، جوسلامتی کونسل کے ایما پر بلایا گیا تھا، قرارداد پر ووٹنگ تین دن جاری رہنے والے مباحثے کے آخری روز بدھ کی شام ہوئی۔ اس سے قبل، بدھ ہی کے روز روس کی افواج نے یوکرین کے متعدد شہروں پر فضائی حملے کیے اور بم حملوں کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے، جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔
قرارداد کے متن میں یوکرین پر روسی جارحیت پہ افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، گزشتہ بار سلامتی کونسل کی جانب سے جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس تقریبا چالیس سال قبل 1982ء میں طلب کیا گیا تھا۔
بدھ کو ووٹنگ کے دوران بیلاروس نے روس کا ساتھ دیا، جہاں سے اس جارحیت کے لیے روس نے اپنی افواج کو یوکرین روانہ کیا۔ اریٹیریا، شمالی کوریا اور شام نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
پینتیس ملکوں نے جن میں چین کے علاوہ، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں، ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف روس کی وزارت دفاع نے یوکرین میں حملے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق اعداد و شمار دیے ہیں۔
روسی میڈیا کے مطابق اس کا کہنا ہے کہ اب تک 498 روسی فوجی مارے گئے ہیں اور 1597 زخمی ہوئے ہیں۔
یہ دعویٰ یوکرینی جائزے سے بہت کم ہے۔ کیؤ کا دعویٰ ہے کہ اس نے 5940 روسی فوجی ہلاک کیے ہیں۔
تاہم یوکرین کی حکومت نے اپنے فوجیوں کی اموات سے متعلق اعداد و شمار نہیں دیے ہیں۔
یوکرینی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ اب تک 2000 شہری اور ریسیکو عملے کے 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری طرف روس کے شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں یوکرین پر حملے کے خلاف ایک بار پھر احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
کچھ دن پہلے ہوئے احتجاج میں سکیورٹی اہلکاروں نے تشدد کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کیا جبکہ درجنوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
حالیہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب روسی صدر پوتن کے شدید مخالف الیکسی نوالنی، جو اس وقت جیل میں ہیں، نے فوجی حملے کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ریلیاں نکالنے پر زور دیا۔ الیکسی نوالنی نے کہا کہ روس ’خوفزدہ بزدلوں کی قوم نہیں ہونی چاہیے۔‘
روس میں حکام کا آزادانہ نیوز کوریج کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ یوکرین میں مداخلت کو کریملن ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کہتا ہے۔
گذشتہ شب حکام نے ایک کمرشل ریڈیو سٹیشن ایکو کو آف ایئر کیا اور بڑے انٹرنیٹ ٹی وی چینل دوز ایچ ڈی کی ویب سائٹ تک رسائی محدود کر دی۔
حالیہ دنوں کے دوران حکام نے ذرائع ابلاغ کی کمپنیوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے ہیں جس میں یوکرین پر حملے سے متعلق مواد ہٹانے کا کہا گیا ہے ورنہ ان پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
میڈیا کو ’جنگ‘ یا ’مداخلت‘ کے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور وہ اپنے مواد میں شہریوں اور فوجیوں کی اموات سے متعلق ’غیر مصدقہ‘ (جو سرکاری ذرائع سے نہ لی گئی ہوں) معلومات شامل نہیں کر سکتے۔
اس ریڈیو سٹیشن کا دعویٰ ہے کہ استغاثہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں یوٹیوب جیسی ہوسٹنگ سروسز کا سہارا لے رہے ہیں۔
ماسکو میں پرائمری سکول کے بچوں نے منگل کو یوکرینی سفارتخانے کے باہر پھول رکھے اور اس دوران انھوں نے جنگ مخالف پوسٹر پکڑے ہوئے تھے۔
میں نے ایسی تصاویر دیکھیں کہ روسی پولیس نے اس کے بعد ان بچوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ مجھے اس پر ہرگز یقین نہ آیا۔
مگر اب اس پیشرفت کی تصدیق نوبیل انعام یافتہ اخبار نوایا گزیٹا نے کردی ہے۔ اس اخبار نے بتایا ہے کہ اب ان بچوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ یہ بچے بظاہر ایک پولیس کی گاڑی میں افسران کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ پھر انھیں پولیس سٹیشن میں پھول اور پوٹسر تھامے دیکھا جاسکتا ہے۔
بظاہر جنگ پر مبنی اپنے بیانیے کو مضبوط رکھنے کے لیے کریملن سخت اقدامات اٹھا رہا ہے۔
بیلاروس میں یوکرین اور روس کے درمیان بات چیت متوقع ہے۔ تاہم ماسکو کے چیف مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ بات چیت بدھ کے بجائے جمعرات تک ملتوی ہوگئی ہے۔
بیلاروس میں ولادیمیر مدینسکی نے روسی میڈیا کو بتایا ہے کہ ’یوکرینی وفد جمعرات کو مقام پر پہنچے گا۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ روسی دستوں نے اس وفد کو یوکرین میں ’حفاظتی راہداری دی ہے۔‘