یوکرین میں جنگ جاری ہے۔روسی حملے کے بعد یوکرینی شہری اپنے گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
اب تک تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار یوکرینی شہری اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ملک میں روسی ٹینک گھوم رہے ہیں اور شہروں پر میزائلوں کی بارش جاری ہے۔ بہت سے لوگ مغرب میں، لییو جیسے شہروں، یا سرحد پار پولینڈ کی جانب نکلے ہیں۔
یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف نے فیس بک پر اپنے ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ ’کئیو پر دو گھنٹے میں قبضے کا دعویٰ کرنے والے کہاں ہیں؟ مجھے تو وہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔‘
اپنے پوسٹ میں وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف نے فوجیوں، پولیس، طبی عملے اور ہتھیار اٹھانے والے شہریوں کی تعریف کی۔
ریزنیکوف نے لکھا ’اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے خوف پر قابو پا کر کریملن کا مقابلہ کرنے کی ہمت کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ ہمیں کافی چیلینجز کا سامنا ہے، ساری دنیا کے لوگوں کی نظریں یوکرین پر ہیں اور تین دن پہلے تک جس امداد کا حصول ناممکن نظر آ رہا تھا، اب وہ پہنچنے والی ہے۔‘
’انھوں نے مزید کہا ’اس فوج اور ہمارے لوگوں کے بغیر، یورپ کبھی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ہمارے بغیر یورپ کا وجود ہی نہیں رہے گا۔‘
کیؤ کے ڈپٹی میئر میکولا پووروزنیک نے آج صبح کہا ہے کہ شہر کی صورتحال پرسکون ہے اور شہر یوکرینی افواج کے کنٹرول میں ہے۔
گذشتہ رات دارالحکومت میں روسی میزائلوں کے کئی انتباہ جاری کیے گئے مگر ایسا لگتا ہے کہ کوئی فضائی حملہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم شہر کے بالکل باہر دھماکے ہوئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ روس نے کیؤ کے بالکل جنوب میں واقع شہر واسلکیو میں تیل کے ایک ڈپو کو نشانہ بنایا، بتایاجا رہا ہے کہ یہاں پر ایک فوجی ایئربیس بھی ہے اور وہاں اب تک آگ لگی ہوئی ہے۔
حکام نے آس پاس کے علاقے کے ساتھ ساتھ کیؤ کے رہائشیوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ زہریلے دھوئیں سے بچیں اور اپنی کھڑکیاں بند کر لیں۔
یوکرین کی ایمرجنسی سروس نے تصدیق کی ہے کہ شمال مشرقی شہر خارخیو میں نو منزلہ عمارت پر ایک راکٹ حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئے۔
چند گھنٹے پہلے اسی شہر میں ایک گیس پائپ لائن پر بھی راکٹ حملہ ہوا ہے۔
خارخیو یوکرین کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور 24 فروری سے یہاں روسی حملے جاری ہیں۔
یوکرین میں سومی کے گورنر دمتری زیویتسکی کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز شمال مشرقی شہر اوختیرکا پر روسی حملے کے نتیجے میں ایک سات سالہ بچی سمیت کم از کم چھ یوکرینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں بچوں کے سکول اور ایک یتیم خانے کو نشانہ بنایا گیا۔ روس اس حملے کی تردید کرتا ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے روس پر ’جنگی جرائم‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے اس واقعے کی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے فنڈز فراہم کرے گا تاکہ اسے روسی افواج سے لڑنے میں مدد مل سکے۔
یاد رہے اس سے قبل کینبرا میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ آسٹریلیا صرف ’غیر مہلک‘ فوجی ساز و سامان ہی فراہم کرے گا۔
وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے اس فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے اتوار کی صبح سڈنی میں یوکرین اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ایک چرچ سروس میں شرکت کی۔
انھوں نے کہا کہ جب یوکرین کی بات آتی ہے تو آسٹریلیائی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اپنے نیٹو شراکت داروں، خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر مہلک ہتھیار فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘