کوئٹہ:بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن پجار کے مرکزی ترجمان نے 21فروری مادری زبان کے دن مناسبت سے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ اب جبکہ چہار سو عالمگیریت کا دور دورہ ہے، قومی ریاستوں کی سرحدیں کمزور ہوتی جارہی ہیں، سرمایہ نئی سے نئی منڈیوں کی طرف رواں دواں ہے ،تو ایسے میں دنیا بھر میں ثقافتی اور تہذیبی سطح پر بھی غیر معمولی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ مقامی ثقافتیں اپنے بچائو کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان میں سے جس ثقافت میں حالات کے تھپیڑے برداشت کرنے کی صلاحیت ہے وہ ہنوز اپنی قامت کے ساتھ کھڑی ہے۔ جن کے اندر جان برقرار نہیں رہی وہ معدوم ہوتی جارہی ہیں۔اس صورت حال میں مادری زبانوں کو زندہ رکھنا ایک چیلنچ بن کر رہ گیا ہے۔
ترجمان نے 21فروری کے شہدإ کوخراج ٕ عقیدت پیش کرتے ہوٸیں کہا 21 فروری کو ہر سال بین الاقوامی مادری زبان کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مادری زبان منانے کی تاریخ بنگلہ دیش کے1952کے مادری زبان کی تحریک سے جڑی ہوئی ہے۔21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے ملک گیر سطح پر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ اس تحریک کو روکنے کے لئے حکومت نے دفعہ 144 کے تحت کرفیو لگا دیا لیکن اس سے طالب علم اور مشتعل ہو گئے اور پولیس کے ساتھ تصادم میں 4طلبا کی جانیں چلی گئیں۔ ان طلبا کی شہادت کو بڑے احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ان کی یاد میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ شہید مینار پر پہنچ کر ان طالب علموں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسا دن ہے جب عوام اپنی ثقافتی سالمیت اور مادری زبان کے تحفظ کے لئے عہد کرتے ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ کسی بھی قوم میں زبان کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے جذبات اظہار ٕ خیالات و ادب زبان پر منحصر ہوتے ہیں دنیا میں شاید ہی کسی زبان کا ادب ہو جس میں مادری زبان کی اہمیت کو تسلیم نہ کیاگیا ہو۔ خود ہماری سرزمین پر ہر زبان کے ادب میں جہاں مقامیت کی بْو باس بسی ہوئی ہے وہیں ماں بولی یا مادری زبان کی اہمیت کا اقرار بھی مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے۔
ترجمان نے بیان میں مذید کہا ہیکہ بلوچ ایک کثیر والزبان قوم ہے لیکن ہماری زبانیں آج حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے زوال پذیری کا شکار ہے ہماری زبان دیارِ غیر کی ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیاگیا ہے، یوں کتنی ہی زبانیں اور ثقافتیں برباد ہوئیں اور آج محض تاریخ کی روایات ہی میں زندہ ملتی ہیں۔زبانوں یا ثقافتوں کے مٹ جانے کا یہ سلسلہ آج پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زبانیں کس تیزی کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں اس کا اندازہ عالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ 1950سے 2010تک دنیا کی کم و بیش 250زبانیں ختم ہوگئیں۔یہ وہ زبانیں تھیں جن کی صدیوں پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی خزانہ بھی موجود تھا۔اس کے باوجود یہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائیں
ترجمان نے کہا ہیکہ گو کہ زبان کو محض الفاظ اور جملوں کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے لیکن زبان ایک فرد کو اپنے خاندان، تاریخ، عقائد، رسم و رواج، پہچان اور ادب سے جوڑے رکھنے کا سب سے اہم عنصر ہے۔ بلاشبہ زبان کی برکت سے ہی ایک نسل اپنی تاریخ، روایات اور بڑوں کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہیکہ ہم نٸی نسل کو تعلیم اپنے مادری زبان میں دیں
لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے مادری زبان کی ضرورت اور اہمیت کو آج مسترد اور فراموش کر دیا ہے جس کا شدید خمیازہ ہماری نسلیں بھگت رہی ہے۔ مادری زبان سے لا علمی اور بے توجہی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیمی پسماندگی پائی جا رہی ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اس حقیقت کا بھی خلاصہ ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی تعلیمی ناخواندگی کی شرح میں اضافہ کا ایک بڑا سبب مادری زبان میں تعلیم فراہم نہ کرنا ہے
Share this: