کسی بھی ریاست کے وجود کیلے اور اسے برقرار رکھنے کیلے آسان زبان میں چار ستون یعنی سیاست، عدالت،میڈیا اور فوج کو مانا جاتاہے۔ بقول ڈاکٹر نعمان نیر کلاچوی ”جدید نظم اجتماعی کی رو سے کوئی بھی صحت مند جمہوری ریاست دراصل چار بنیادی ستوں پر قائم ہوتی ہے۔گویا یہ چار ستون ایک صحت مند جمہوری ریاست کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر ان چار ستونوں میں سے ایک ستون بھی مضمحل ہوجائے تو ریاست کا مجموعی نظم تتر بتر ہوجاتاہے۔“
اگر ہم یہ کہیں کہ ان میں سے ایک ہی اپنے ذمہداریوں سے ہٹ جائے تو وہ ریاست پاکستان بن جاتاہے تو غلط نہیں ہوگا۔
یہاں ہماراموضوع چونکہ موجودہ بلوچ تحریک ہے۔ جب ہم ان پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں تو ایک ہی ستون کھڑا ہمیں نظر آتاہے وہ ہے مسلح باقی تین ”سیاست،میڈیا عدالت“ جو مسلح ہیں لیڈر سے لیکر عام ممبر کے نظر میں بذدل ٹھرائے جاتے ہیں،بذل کہتے ہوئے وہ کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے اور سینہ تان کر بلا سوچے سمجھے بولے جاتے ہیں ۔ ان کے نذر میں بہادر اور شیر وہ ہیں جو مسلح لڑ رہے ہیں۔ اس سوچ پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سب باتیں چھوڑیں صرف اپنے کمرے کا جائزہ لیں کیا وہ ایک ستون پر کھڑا ہوسکاتاہے میرے خیال میں چار ستونوں میں سے ایک ہی کو باہر کریں تو وہ چھت دھڑام سے آپ کے اوپر ہوگا اس وقت وہ آپ کی حفاظت نہیں بلکہ موت بن کر سر پر کود جائے گا۔
پرندہ کی مثال لیں وہ بھی دو پر اور دوٹانگیں ملاکر چار ستون پر کھڑا دکھائی دے گا ان میں سے ایک پر کاٹ لیں کیا وہ اڑنے کے قابل ہوگا،۔ٹھیک اسی طرح مسلح تنظیمیں اپنے دماغ سے غرور کا بھوسہ نکال دیں کہ وہ سرفیس سیاسی جماعتوں،میڈیا اور عدالت قائم کئے بغیر آزادی لینے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس وقت بلوچستان میں سیاسی لوگوں،میڈیا سے وابستہ افراد اور قانون سے واقف لوگوں کو سامنے لانا ہوگا ،انھیں ذمہداریاں دینا ہوگا اور انکے محنت کا پروپیگنڈہ زریعے کنچونبر نکالنے سے گریز کرنا ہوگا، اس غرور سے بھی نکلنا ہوگا کہ صرف آپ مسلح ہوکر ہی اس کشتی کو گہری سمندر سے ساحل سمندر پر پہنچا نے کے قابل ہیں۔ اس سے قبل بھی راقم نے ایک کالم میں یہی لکھا تھا کہ چار ستون، میں ہرقسم کے افراد موجود ہیں آپ انھیں اپنے اندر تلاش کریں۔ اگر سرفیس سیاست میں کوئی کمزور اور مسلح ہونے میں مضبوط ہے تو آپ وہی کام ان سے لیں،اگر کوئی میڈیا کو چلانے کے قابل ہے اسے سیاست اور مسلح تنظیم میں رگڑ کر ان کے وہ صلاحتیں دفن نہ کریں جس کی بدولت دشمن کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ میرے نذدیک چاروں ستوں میں سے ہمیں مشکل سے ہی ہر فیلڈ کے ماہر افراد ی قوت ملتی ہے، تو ان کو انکے فیلڈ کا کام دیں تو وہ آسانی سے وہ کام کر سکتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی،مثلا ایک استاد کو آپ بچوں میں قومی شعور دینے بجائے بندوق،سیاست،قانون یامیڈیا تھمادیں، کیا وہ رزلٹ دے پائے گا جو وہ ایک ٹیچر بن کر دے رہا تھا،اس طرح جو گلوکار شاعر لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہوتے ہیں انھیں وہاں سے ہٹاکر آپ کہیں اور رگڑیں گے تو یقینا یہ وقت برباد کرنے والی بات ہوگی۔اور آپ اس غلط فہمی کا شکار نہ بنیں کہ آپ قومی خدمت کر رہے ہیں بلکہ لاشعور ی آپ ایک عظیم غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
ان نادان دوستوں کیلے پھر عرض ہے کہ آپ جہاں ہوں دوسروں کی محنت کی بھی قدر کرنا سیکھیں آپ کو کیا معلوم میڈیا والوں،سرفیس سیاست کرنے والوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے۔ اور یہ یاد رکھیں مسلح تنظیم کوئی خودرؤ چیز نہیں اسکی باگ ڈور لگام میڈیا،عدلیہ اور سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہر وقت ہوتی ہے۔ اگر ان سے نکل گئے تو پاکستانی فوج اور سیاست حکمران آپ کے سامنے نشان عبرت کیلے کافی ہیں۔ اب بھی وقت ہے اپنے بازو کاٹنے بجائے انھیں اپنے ساتھ جوڑ دیں،کیوں کہ پاکستان کا میڈیا کبھی نہیں دکھائے گا کہ بلوچ ماں بہن کی ریپ ،اغوا،قتل،پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ہوئی ہے،اس کا سیاسی جماعت آپ کا مقدمہ اقوام متحدہ کے فورم پر نہیں اٹھائے گا، ان کی عدالت آپ کی نسل کشی کا کیس عالمی عدالت انصاف میں جمع نہیں کرائی گی۔ اگر ان مظالم کے بارے آواز اٹھانے والے عملاََ کام کرنے والے یہی آپ ہی کے تینوں ستون ہی ہونگے۔ یہ مثال ہروقت دیا جاتاہے کہ مسلح تنظیم کے ساتھی مچھلی کی طرح ہیں عوام ان کا پانی ، کیوں اس لئے دیا جاتاہے کہ آپ اپنی طاقت کا سبب جانیں اور قدم اٹھائیں اگر پانی سے نکال دیئے جائیں گے(قوم کے نظر میں گر جائیں گے) تو انجام دیگچی تندور یا ردی کی ٹوکری ہوگی۔ اس لئے اس حرکت سے دور رہیں تحریک کو چاروں ستوں کی ضرورت ہے ایک ستون کو پچھلے بیس سال سے کھڑا کرنے کی ناکام کوش جاری ہےاور تمام توانی صرف کی جارہی ہے خو نقصاندہ عمل ہے ۔ ہمارے مسلح اکثر ساتھی اکثر کسی لیڈر کو کوڈ کرکے فخر سے کہتے سنائی دتے ہیں کہ ان کے بقول ”بہادر دشمن کا سن کر یہ نہیں پوچھتا کہ دشمن کی تعداد کتنی ہے بلکہ وہ پوچھتاہے دشمن کہاں ہے اس کے مقابل بزدل پوچھتاہے تعداد کتنی ہے۔“ یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی نہیں کہتاکہ جناب یہاں آپ کا خیال غلط ہے جو تعداد پوچھ رہاہے وہ عاقل دانا اور تدبیر کرنے والا جانباز ہے ،اسکی دانائی کو آپ نے بزدلی کا خطاب دیکر محض اپنی نادانی دکھائی ہے۔ جب تک آپ دشمن کے بارے مکمل علم نہ رکھتے ہوں تو آپ انھیں ضرب لگانے قابل کیسے ہوجائیں گے۔ ہاں اگر وہ فدائین ہے تو بھی وہ دشمن بارے مکمل مکمل جان کاری لیکر اس کے مطابق اپنا حملہ ترتیب دیکر دشمن کے سر پر جا بیٹھے گا جس کی مثال حالیہ پنجگور اور نوشکی کے کامیاب حملے ہیں انھوں نے آپ کے فلسفہ کے مطابق کام نہیں کیا بلکہ معلومات اور ایک منظم ترتیب جنگی حکمت عملی کے بنیاد پر گھس کر تاریخ رقم کردیا۔ ۔