سوئس لیک میں پاکستانی جنرل کا نام بھی شامل

بوسنیا:وکی ليکس، پاناما اور پينڈورا پيپرز کے بعد کريڈٹ سوئس بينک کے 18 ہزار اکاؤنٹس کا ريکارڈ ليک ہوگيا، جس میں پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل اختر عبدالرحمان کا نام بھی شامل ہے۔ کريڈٹ سوئس لیک نے اکاؤنٹس ميں 100 ارب ڈالر سے زائد رقم موجود ہونے کا انکشاف کيا ہے، جن ميں کئی ڈکيٹيٹرز، سياستدانوں اور خفيہ اداروں کے سربراہان کے کھاتے شامل ہيں۔سوئس سیکریٹس کے مطابق جنرل اختر عبدالرحمان نے مصر کے عمر سلیمان، یمن کے غالب القاسم اور اردن کے جاسوس سعد خضر کے ساتھ مل کر ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیاں چلائیں جہاں سے وہ بڑے بلیک بجٹ کو کنٹرول کرتے تھے جو پارلیمانی اور ایگزیکٹو کی جانچ سے بالاتر تھے۔ یہ تمام شخصیات یا ان کے خاندان کے افراد نے کریڈٹ سوئس میں ذاتی اکاؤنٹس بھی رکھے تھے جس میں ایک بڑی رقم تھی جبکہ ان کی ذاتی آمدن کے کوئی واضح ذرائع بھی نہیں تھے۔مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں امریکی مداخلتوں میں ان چاروں شخصیات کا اہم کردار تھا جس میں 1970 کی دہائی کے آخر میں سوویت مخالف مجاہدین کی پشت پناہی کرنے کی سی آئی اے کی ابتدائی کوششیں، 1990 میں پہلی خلیجی جنگ جبکہ 2001 میں عراق اور افغانستان میں شروع کی جانے والی نام نہاد نہ ختم ہونے جنگیں شامل ہیں۔ او سی سی آر پی نے انکشاف کیا کہ 1970 کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے سات گروپس کی امریکا نے پشت پناہی کی۔ امریکا کے تعاون سے سعودی عرب اکثر سی آئی اے کے سوئس بینک اکاؤنٹ سے ڈالر بھجتا تھا اور ساکا آخری وصول کنندہ پاکستان کا انٹر سروسز انٹیلی جنس گروپ (آئی ایس آئی) تھا، جس کی قیادت جنرل اختر کر رہے تھے۔ سن 1980 کی دہائی میں پاکستانی جنرل نے اپنے بیٹوں کے نام تین سوئس اکاؤنٹس کھولے۔ یکم جولائی 1985 کو کریڈٹ سوئس میں جنرل اختر کے بیٹوں اکبر، غازی اور ہارون کے ناموں پر مشترکہ طور پر کھولا گیا جبکہ دوسرا اکاؤنٹ جنوری 1986 میں جنرل اختر کے نام کھولا گیا جس کی مالیت نومبر 2010 تک 9 ملین سوئس فرانک سے زیادہ تھی۔ Share this:

Post a Comment

Previous Post Next Post