وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج جنگ کو جنگ کے میدان تک محدود رکھے ناحق بلوچ قوم کو اجتماعی سزا نہ دے۔
انھوں نے کہاکہ قدرت کے نظام میں دیر سہی مگر اندھیر نہیں،آج نہیں تو کل آپ کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
کراچی پریس کلب میں بلوچ یک جہتی کمیٹی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جو وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے پڑھ کر سنائی۔
اس پریس کانفرنس میں عبدالحمید زھری اور متحدہ عرب امارات سے حراست میں لینے جانے کے بعد پاکستان حوالگی کے بعد جبری لاپتہ راشدحسین اور عبدالحفیظ زھری کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔
ماما قدیر نے کہا اس مہینے کے صرف گذشتہ 13 دنوں میں پاکستانی فوج نے کل 74 لوگوں کو اٹھا کر زندانوں میں منتقل کیا ہے۔صرف کیچ کے مختلف علاقوں سے 30 سے زائد لوگوں اٹھائے ہیں،پنجگور سے 10 نوشکی سے 8 اسی طرح خضدار،سبی،ڈیرہ مرادجمالی،آواران، بولان حتیٰ کہ پنجاب سے بھی بلوچوں کو اٹھایا گیا۔
انھوں نے کہا ہم ریاست پاکستان سے اضافی مراعت و رحم کی اپیل ہرگز نہیں کرتے ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ آپ قانون،اپنے آئین،اپنی عدالت اور اپنے استغاثہ کے ذریعے ہمارے نوجوانوں پر مقدمہ کریں انھیں سزا دیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ 2 فروری کو پنجگور اور نوشکے میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملوں کے بعد فوج نے عام لوگوں کو نشانہ بنایا۔
انھوں نے کہا پنجگور میں اس حملے کے دوران جتنے لوگ بھی فوج کے ہاتھ لگے انھیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دو افراد کو قتل کیا گیا جن میں ایک طالب احتشام سرور کو نہایت قریب سے سر میں گولی مار کر قتل کردیا گیا، ایک ذہنی معذور شخص جو ندیم ابدال کے نام سے شہر میں مشہور تھے انھیں بھی قتل کیا گیا۔ نوشکے میں بھی اس دوران فوج کو باہر جو لوگ ملے انھیں حراست میں لے کر ان پر تشدد کیا گیا، کوئی نماز پڑھنے جا رہا تھا یا اپنے کسی کام کے لیے کسی پر رحم نہیں کیا گیا۔
”لوپ بالگتر، گوارگو ضلع پنجگور کے رہائشی 21 سالہ الطاف ولد جاڑا کو جنھیں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے تجابان سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا، فوج نے قتل کے بعد سرمچار ظاہر کیا، ان کے والدین نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے انصاف کی اپیل کی، لیکن شاید کسی نے وہ آواز آج تک نہیں سنی ہوگی۔“
ماما قدیر نے گذشتہ روز تیرتج میں پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کی اور کہا ضلع آواران کے علاقے تیرتج میں دو بھائی محمد علی ولد دینار اور عبدالواحد ولد دینار کو فوج نے حراست میں لیا اور کیمپ لے جاکر ان پر شدید تشدد کیا جس سے بڑے بھائی محمد علی کی موت واقع ہوگئی جبکہ عبدالواحد کو نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا۔ اس پر ستم یہ کہ محمد علی کی لاش بھی ٹریکٹر کے ذریعے گڑھا کھود کر دبائی گئی، ان کے لواحقین کو لاش بھی نہیں دی گئی تاکہ انھیں مذہبی رسومات ادا کرکے کفن پہنا کر دفن کرسکیں۔
انھوں نے کہاکہ جرنیل صاحب طاقت کے غرور سے اس حدتک پہنچ چکے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ تو کیڑے مکوڑے ہیں انھیں کچلنے سے ان کا بال بھی باکا نہیں ہوگا،ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب آپ نے بنگالیوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا لیکن آج بنگال کو دیکھ لیجیئے اور ذرا آئینہ میں اپنی شکل بھی دیکھ لیجیے۔