بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں اتوار کے روز پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام پشتون رہنماء علی وزیر اور دیگر کی غیرقانونی گرفتاریوں کے خلاف ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔
جلسہ عام میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین سمیت دیگر پشتون قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں، لاپتہ بلوچ طالبعلم رہنماء ذاکر مجید کی والدہ اور بلوچ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے منظور پشتین نے کہا کہ آج پشتون اپنے قومی بقا کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی وزیر، حنیف پشتون اویس ابدال ادریس خٹک یا دوسرے رہنماؤں کا گناہ یہ ہے کہ وہ پرامن پشتون ہیں اگر وہ ایسے نہ ہوتے توان کے ساتھ یہ رویہ بھی نہ روا رکھا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ جو اسلحہ لے کر گھومتے ہیں ان کے ساتھ آپ لوگوں کی یاری ہے، سمجھوتہ ہوچکا ہے مان لیتے ہیں کہ یہ بات آپ لوگوں نے صیغہ راز میں رکھا تھا لیکن آج تو آپ کے معاہدے سے عیاں ہوچکا ہے۔ تو یہ چیک پوسٹ والے بسوں اور دیگر گاڑیوں کو اپنے پوسٹوں پہ روک کر کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ہمیں تو معلوم ہے جو تم دیکھنا چاہتے ہو، تم صرف پشتون قوم کو ذلیل کرنا چاہتے ہو اور اگرہمیں ذلیل کرنے کے علاوہ بھی کوئی اور ارادہ رکھتے ہو تو ہمیں بتادو۔ وہ جو اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، جو پشتون وطن میں عزت کی زندگی جینے کے لیے اور قومی یکجہتی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں انھیں تم ناجائز اور غیر قانونی کہتے ہو جب کہ دوسروں کے ساتھ معاہدے اور انھیں رہا کرکے انھیں جائز تسلیم کررہے ہو۔ یہ ریاست عجیب ہے کہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنیوالے زندان میں بند پڑے ہیں اور انہیں اپنے آئین کا دشمن یعنی ان کے عمل کو ناجائز کہہ رہی ہے۔ تو ہمیں بتا دو کہ جائز اور نا جائزکیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہی ہمارے اور ان کے درمیان فرق ہے کہ ہم حق کی بات کہتے ہیں اور وہ حق بات کے منکر ہیں۔
منظور پشتین نے کہا کہ پشتون قوم کے مسائل بہت ہیں، یہ قوم کہیں کوئٹہ اور اس کے نزدیک ڈی ایچ اے کے نام استحصال کا شکارہوتا ہے، ہرنائی اور شاہرگ میں اپنے ہی معدنی وسائل ان کے لیے جنجال بنائے جارہے ہیں اور انہیں ذلیل کیا جارہا ہے۔ یہ قوم شمالی وزیرستان کے ہر گھر میں نوجوانوں کی لاشیں اٹھا رہی ہے، یہ قوم باجوڑ کے ہر گھر میں شہدا کی لاشیں وصول کررہی ہے، یہ وہ قوم ہے جو مالاکنڈ میں منشیات کے خلاف بھی لب کھول نہیں سکتی، یہ قوم لاہور میں اپنے ہی دکانوں کے ملبے پہ بیٹھی ہے اس قوم کے سپوت کراچی میں کسٹم والوں کے ہاتھوں ذلت اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس ظلم کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے، اس کرب کا اندازہ وہ لوگ کرسکتے ہیں جو ظلم کا شکار ہوچکے ہیں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان کا درد بیان سے باہر ہے۔ ہزاروں پشتون نوجوان جبری لاپتہ ہیں، لاکھوں کو ماردیا، معدنیات پہ قبضہ کیا ہواہے، کاروبار پہ پابندی ہے۔ چمن سے لے کر تورخم تک غنڈوں کا راج ہے۔ ان مسائل پہ وہ عدالتیں جو خود کو آزاد کہتے ہیں، اگر یہ ادارے آزاد ہوتے تو ہمیں انصاف فراہم کرتے، اگر یہ آزاد ہوتے تو ہمارے پشتونوں کے کیسز میں دلچسپی لیتے، اور اگر تم لوگ دلچسپی نہیں لیتے، جرات کا مظاہرہ نہیں کرسکتے تو دوسرے اداروں کی طرح تم لوگ بھی ذمہ دار ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ میڈیا جو گدھوں اور کتوں کی خبروں کو بھی نشر کرتا ہے لیکن پشتون، بلوچ اور ہزارہ کے وقت چپ رہنا ہی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کو بھی کہہ رہے ہیں کہ جو فکر پروان چڑھ رہی ہے جو غصہ ابل رہا ہے اس میں آپ لوگوں کو بھی اپناحصہ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ آصف غفور نے کہا تھا کہ ہمارا کا وقت ختم ہوچکا ہے لیکن ہم تمہیں بتادیں گے کہ وقت کس کا ختم ہوچکا ہے ہمارایا تمہارا۔ یہ قوم یہ وطن ہزاروں سالوں کی تاریخ کا مالک ہے، اس پہ چنگیزخان سے لے کر فرہنگیوں نے بھی زور لگایا لیکن وہ بھی نامراد ثابت ہوئے، لہذا اس قوم کا وقت کوئی ختم نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک کا وزیراعظم اور اس کے حواری ہر جگہ پشتونوں کو دیگر سے ملانے کی کہانی جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی ایم مضبوط ہوگی تو ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم پوری قوم کو یکجا کرنے کی نہ صرف جدوجہد کریں بلکہ میں رہوں یا نہ رہوں ہر آفت زدہ اور متاثر پشتون کو گلے سے لگانا ان کی مدد کرنا انھیں ایک ہی لڑی میں پرونا ہے، پی ٹی ایم اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا نہ کہ فقط چار لوگوں کو اکھٹا کرنا۔ ہمارا مقصد ہم بھائی چارے کو فروغ دیں، ہم ہر متاثراور بالخصوص پشتونوں کے گھروں تک خود کو پہنچائیں اور اس قوم کو ایک لڑی میں پرو دیں۔ ہم کسی اور سے کوئی اتحاد نہیں کریں گے ہمارا اتحاد یہی ہے کہ ہم ایک قوم بن جائیں۔
ہم اس قوم کو یکجا کریں گے جیسے ماضی میں تھا اور یہ اس مٹی کی محبت کی وجہ سے تھی اور مفادات سب کا مشترکہ تھا آج بھی دور وہی ہے لیکن ہم بدل چکے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آج بھی اپنے پشتون وطن میں ہمیں برابھلا کہنے والے بھی ہیں لیکن ہم اسکے بالکل بھی حق میں نہیں کہ پشتون باہم دست و گریبان ہو ہم تو قومی یکجہتی کی جدوجہد کررہے ہیں جس میں ہماری بقا ہے۔اوراس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لائیں بزرگوں، عورتوں اور تمام لوگوں کا احترام ایسی روایات کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور پروان چڑھانا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے اس کے لیے کوئی اور نہیں آئے گا لہذا ہمیں اپنے فرائض کی جانکاری ہونی چاہیے تب تبدیلی آئے گی تب ہم کامیاب ہوں گے۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچ علاقوں میں اکثر پشتون نوجوانوں کو جنگ کے لیے بھیجاجاتا ہے۔ بلوچوں کے ساتھ ہمارا بھائی چارہ ہے کوئی دشمنی نہیں جو قوم جو علاقہ دشمنی کرنا چاہتا ہے وہ خود کرے ہم اپنے نوجوانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وہاں نہ جائیں۔