پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے آج کوئٹہ میں منعقدہ عظیم الشان جلسہ عام میں پشتون قوم کے نام بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی شعبہ نشرواشاعت کی جانب سے چیئرمین بی این ایم خلیل بلوچ کا پیغام تقسیم کیا گیا۔
اپنے پیغام میں پیغام میں چیئرمین خلیل بلوچ نے پشتون قوم کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وطن کی آزادی اور قومی بقاء کی جدوجہد میں مصروف عمل محکوم اقوام اور ان کی جہد وجہد کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس راہ میں شہید ہونے والے ان شہداء کو بھی میرا سلام جو قومی وقار کی خاطر قربان ہوئے۔
غیور پشتونو!
اس خطے پر انگریز استعمار کے قبضے سے پہلے پشتون اور بلوچ اقوام آپس میں ثقافتی اور برادرانہ رشتوں کے ساتھ جڑے تھے۔ہمارے دونوں ملک افغانستان اور بلوچستان کی تباہی کی بیج اس وقت بوئی گئی جب یہاں استعمار نے پنجے گاڑھے اور اپنی نیابت نومولود ریاست پاکستان کے سپرد کرکے اس خطے سے چلا گیا۔
انگریزوں کا بلوچستان پر حملے کی صرف ایک وجہ تھی کہ خان بلوچ شہید محراب خان نے اپنی سرزمین برادر ملک افغانستان کے خلاف استعمال کرنے سے منع کیا تھا جس کے ردعمل میں انگریز فوج نے بلوچستان کے پایہ تخت کلات پر حملہ کیا اور خان بلوچ شہید محراب خان اپنے جانبازوں کے ساتھ قبضہ گیروں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔جس کے بعد انہوں نے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے معاہدات کے نام پر یہاں بلوچستان اور وہاں افغانستان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور اپنی چھاؤنیاں قائم کیں۔
آج ان دو برادر ممالک (افغانستان۔ مقبوضہ بلوچستان) کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔وطن پر قبضے سے یہاں بسنے والے اقوام پشتون اور بلوچ بھی غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔پشتون قوم کی قومی و سیاسی بیداری نہ صرف پشتون قومی بقاء کا ضامن ہے بلکہ اس سے محکوم اقوام کو بھی طاقت ملے گی۔
میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان کی جدوجہد کو سراہتا ہوں جنھوں نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے پشتون قومی تحریک کی درست سمت میں رہنمائی کی اور بہت کم وقت میں اس تنظیم اور اس کی قیادت نے پشتون اور دیگر محکوم اقوام میں اپنی جدوجہد کی بدولت نمایاں مقام حاصل کیا، شہادتیں دیں اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔اس جدوجہد میں بلوچ قوم اپنے پشتون بھائیوں کو کبھی بھی تنہاء نہیں چھوڑیں گے ہم مسائل کے منطقی حل کے لیے مشترکہ دشمن کے خلاف آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
میرے پشتون بھائیوں، بہنوں، مشران محترم اور اس تحریک کے صف اول میں کھڑے نوجوانو!
پاکستان نے منظورپشتین، محسن داوڑ، عبداللہ ننگیال، سید عالم اور ثنا اعجاز کی بلوچستان آمد پر پابندی لگائی ہے۔ یہ پاکستان کی بوکھلاہٹ اور حواس باختگی کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان منظورپشتین سمیت تمام جمہوری اور قوم پرستانہ توانا آوازوں سے خائف ہے۔ وہ ان پر پابندی عائد کرکے ان کی آواز کو لوگوں تک پہنچنے سے روکنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے۔ پاکستان اس امر سے شائد ناواقف ہے کہ سچائی اور حقیقت پر مبنی آوازوں کو پابندیوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ یہ تجربات پاکستان کے پیش رو قبضہ گیر برطانیہ نے بھی دہرائے تھے مگر وہ ذرا جلدی سمجھ گیا کہ اس طرح قوموں کو زیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی بلوچ، پشتون اور سندھی دشمنی اب وضاحت طلب نہیں رہا۔ پاکستان کی بربریت اور جنگی جرائم ہماری نظروں کے سامنے عیاں ہیں۔ نہ بلوچ اپنے گھر میں محفو ظ ہیں اور نہ پشتون و سندھی۔ ہمارے لوگوں کو گھروں، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے دن کی روشنی میں اٹھا کر زندانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں ان کی ڈرل مشینوں سے چھلنی مشخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ یہی حال پشتونوں کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دشمن عیاں ہے اور تاریخ نے بلوچ پشتون سمیت دیگر مظلوم قوموں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے معروضی حقائق کا ازسرنو جائزہ لے کر آگے بڑھیں۔ تمام مشترکہ مسائل کے لیے ہم اپنے پشتون بھائیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پشتون اور بلوچ قومی سیاسی کارکنو!
ہم ہزار سالہ تاریخ و تمدن اور اپنے آزاد قومی ریاستوں کے مالک تھے مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی حوالے سے تاریخ، تہذیب اور انسانی اقدارسے محروم پاکستان ہزاروں سالوں سے اپنے اپنے سرزمینوں پر آباد بلوچ و پشتون قوم کو بیدردی کے ساتھ قتل کر رہا ہے۔ ہمارے لیے ہماری اپنی سرزمین جہنم میں تبدیل کی گئی ہے۔ ہمارے وسائل کو پاکستان مال غنیمت کی طرح ہڑپ رہا ہے۔ ہماری نسلوں کامستقبل داؤ پر لگا ہے۔ ہمیں جینے کا حق بھی نہیں۔ آج ہم بحیثیت قوم موت و زیست کے درمیان اہم مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یہ تمام مسائل بلوچ اور پشتون قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا ہے۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان ہمیں اپنی کالونی اور غلام سمجھتا ہے۔
پاکستان بلوچ اور پشتون کے خلاف نت نئی سازشیں بن کر ہمیں الجھانا چاہتا ہے۔ پشتونوں کے خلاف پشتونوں کو ایک اورنظریے کے نام پرمسلح و دست و گریبان کرچکا ہے۔ ایک طرف پاکستانی پراکسی پشتونوں کا لہو بہا رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی فوج براہ راست انہیں قتل کر رہا ہے۔ لیکن اب پشتون قوم میں ریاست کے خلاف بیداری سے ایک حوصلہ افزا صورت حال جنم لے رہی ہے۔ پشتون نے اپنے اصل دشمن کو پہچان لیاہے۔
دشمن یہ بھانپ چکا ہے کہ اگربلوچ و پشتونوں کو سنبھلنے کا موقع دیا تو یہ اقوام اس کے غیرفطری وجود کو ڈھادیں گے۔ ہمیں اس بات پر قطعی یقین کرناچاہیے کہ سطحی مسائل کے لیے دشمن کے خلاف اپنی صلاحیتیں صرف کرنے سے ہم قومی مقصد حاصل نہیں کرپائیں گے۔ تمام مسائل کے اصل محرک قوت کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں مجتمع کرکے جدوجہدکرنے کے لیے تاریخ کا ہمسفر بننا چاہیے۔