سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکا بھارت کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے، خالد منصور
کراچی: پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے سربراہ خالد منصور نے اربوں ڈالر کے اس منصوبے کے خلاف سازش کرنے پر امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ امریکا اور بھارت، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) سے پاکستان کو نکالنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سی پیک سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور نے امریکا پر پاکستان کی معاشی لائف لائن کے خلاف بھارت کے ساتھ اشتراک کرنے کا الزام عائدکیا اور کہا کہ ابھرتی ہوئی جیو اسٹریٹجک صورتحال کے تناظر میں ایک چیز واضح ہے کہ بھارت کی حمایت میں امریکا سی پیک کے خلاف ہے، یہ اسے کامیاب نہیں ہونے دے گا، یہاں ہمیں پوزیشن لینی پڑے گی۔اسلام آباد، چین کی بیرون ملک ترقیاتی فنانسنگ کا ساتواں سب سے بڑا وصول کنندہ ہے، اس وقت سی پیک کے تحت 27 ارب 30 کروڑ ڈالر مالیت کے 71 منصوبے جاری ہیں۔بہت سے مغربی تھنک ٹینکس اور تبصرہ نگاروں نے سی پیک کو ایک معاشی جال قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عوامی قرضوں کی سطح پہلے ہی بہت بڑھ گئی اور ملکی معیشت میں غیر متناسب طور پر چینی اثر و رسوخ زیادہ ہوا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) سے پاکستان کو نکالنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بی آر آئی عالمی سطح کا ایک انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ پلان ہے جس کے تحت چینی حکومت تقریبا 70ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ پاکستان اس کے کسی بھی فائدے کو چھوڑ دے، اس نے ماضی میں (مغربی) اتحاد میں ایک سے زائد مرتبہ اپنی انگلیاں جلا رکھی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں چین کے اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو کم کرنے کی ان کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔معاون خصوصی نے کہا کہ مغربی طاقتیں سی پیک کو چین کے سیاسی عزائم کی علامت سمجھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سی پیک کو امریکا اور یورپ دونوں مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں، وہ سی پیک کو چین کے سیاسی، اسٹریٹجک اور کاروباری اثر و رسوخ بڑھانے کے اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم چین اس خدشے پر کافی حد تک قابو پا چکا ہے۔ خالد منصور کا کہنا تھا کہ امریکا اب خطے سے انخلا کے معاشی اور سیاسی نتائج کا جائزہ لے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری امریکی سفارتخانے کے افراد سے بہت تفصیلی بات چیت ہوئی، میں نے انہیں بتایا کہ سی پیک ان کے لیے بھی دستیاب ہے، انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ کسی قسم کی شمولیت کو فروغ دینا چاہیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ دونوں ممالک کے لیے کس طرح فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے کا خواہاں ہے اور اس نے طالبان کی زیرقیادت افغانستان کے اربوں ڈالر کی اقتصادی راہداری میں شمولیت کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔