وہ اسباب ڈھونڈنے ہونگے جو ہمیں آزادی سے دور دھکیل رہے ہیں ۔ تحریر سمیر جیئند بلوچ




بلوچستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہاں ہر وقت جنگ و جدل  رہاہے اور کسی نہ کسی ملک نے یہاں قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر وسیع جغرافیہ ،پہاڑ وں،،لق دق سحرا، جنگل ،میدان بنجر زمین ،سمندر ، کے علاوہ خوراک اور پانی کی کمی علاقائی لوگوں کی تھوڑی بہت مزاحمت نے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرکیا ہے ۔ مگر جب سے کارخانہ صنعت نے ترقی کی ہے اس دن سے بلوچستان قابض کے قبضہ میں جزوی یا مکمل  آگیا ہے ۔

 اس فلسقہ کو سمجھنے کیلے ہم دور نہیں جاتے نہ ہی لمبی چوڑی ہمیں داستان کی ضرورت ہے ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ برٹش ، انگریز نے جزوی قبضہ کرکے بلوچستان کو تین حصوں شمالی،مشرقی اور مغربی میں  تقسیم کرکے اسے دو ممالک اور بعد ازاں مشرقی حصے کو  ایک نومولود بننے والے بھکاری  ملک  پاکستان کے حوالے کردیاہے تاکہ اسکے لیے یہاں سے وسائل لوٹنے میں آسانی ہو ۔ 

  انھوں نے پاکستان کو اس نیت سے الگ ہونے والے چھوٹی ذات کے بٹے ہوئے تمام مسلم  گروہوں کو یکجا کرکے پنجابی کا نام دیکر سامنے لایا ( جو حقیقت میں پنجابی نہیں بلکہ ہیرامنڈی میں پیدا ہونے والے مختلف عیاش اقوام کے بیج تھے ) ۔ 

 اس نام نہاد پنجابی نے نئے ملک  ، انگریز کی بدولت ہاتھ میں آنے کے بعد وہی اسلامی  چورن یہاں بلوچستان میں بھی استعمال کرنا شروع کردیا جس چورن نے ہندوستان کو  دولخت کردیا تھا ۔ 

 نام نہاد پنجابی نے بلوچستان میں پہلا ناپاک قدم مقدس مہمان کے نام، دوسرا اسلام کے نام پر رکھ کر بلوچستان کے سونے  چاندی سے ہاتھ صاف کیا   ، جب اس نے دیکھا کہ سونے کی چڑیا ( بلوچستان ) جسے انگریز داد نے مختلف قبائل میں تقسیم کرکے نہتا کردیا ہے انھیں اعتماد میں لیکر بقیہ حصہ پر جوکہ سیاسی عسکری حوالے سے انتہائی کمزور ہوچکا تھا کو  قبضہ کرلیا ۔ 

وہی قبضہ آج تک بلوچ کے گلے میں  غلامی کا طوق اور ہڈی بن کر اجتماعی مزاحمت نہ ہونے کی سبب  اسکے بچوں کو نگل رہاہے ۔ 

یہاں اجتماعی مزاحمت  نہ ہونے کے اسباب
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک کی اپنی ذاتی مفادات ہیں ،  کوئی اسمبلی میں بیٹھ کر  مفادات  حاصل کررہاہے تو کوئی  معدنی وسائل سے  منافع  کماکر انھیں اونے پونے دشمن قابض کے ہاتھوں  بیچ رہاہے ، تیسرا طبقہ قابض کی بوٹوں سے چمٹ کر بھتہ ، لینڈ مافیا ،منیشات فروشی ، اپنوں کی مخبری کرکے فوج کی چبائی ہوئی ہڈی پر پل رہاہے ،  چوتھا طبقہ چندہ ،بھیک کے نام پر نام نہاد قوم پرستی اور مذہبی چوغہ پہن کر  اپنے ہی عوام کو سیاست ،سماجی خدمات کے نام پر لوٹ کر تجوریاں بھر رہاہے ، پانچواں طبقہ پسا ہوا طبقہ ( عوام )  ہے جو دلجان سے اپنی خدمات ہر ایک کو  پیش کر رہاہے ، اسے نہ اضافی پیسہ سے مقصد ہے اور نہ ہی لیڈری سے واسطہ ہے ، بس وطن قوم کے آزادی کے نام پر  جان دیتے جارہاہے ۔ 

اب اس پانچویں طبقہ  کو سوچنا ہوگا کہ وہ  قربانی دے رہاہے تو اس کو کیش کون کررہاہے ؟  اگر اس کا فائدہ سیدھا اجتماع  عوام اور زمین کو پہنچ رہاہے تو ٹھیک ، اگر ایسا نہیں ہے اس کی خدمات کسی نالائق ابن الوقت گروہ ،جماعت ،تنظیم
 ،پارٹی وغیرہ کو زمین سے اٹھاکر آسمان تک پہنچانے باعث  بن رہا ہے تو اسے اپنے ہاتھ پاوں روک کر سمت کو پھر بدلنا ہوگا کہ ہمارے خدمات کسی فرد ،قبیلہ کیلے نہیں بلکہ قوم اور انسانیت کے بقا ء سے وابستہ ہیں ۔ 

عوام نے  نام نہاد کھٹ پتلی وزیر اعلی سرفراز  اور شفیق مینگل  وغیرہ جیسے بیسیوں بدنام کرداروں کو بے نقاب کیا ہے یقینا وہ ان کرداروں کو بھی بے نقاب کرنے میں کامیاب ہونگے جو بلوچ قوم کو یکجا ہونے میں بڑی رکاوٹ کا باعث بنے ہوئے  ہیں ۔ 

جب ہم عوام اور قوم انسانیت کی ہی سوچیں گے تو اس دن کسی بھی قوم کو کوئی مکار سے مکار نیچ سے نیچ ظالم ،قوم ،قبیلہ ، سردار ،میر متعبر،ٹکری ملک ، واجہ ، اور مہارانی ، بھی نہیں روک سکتی چاہئے یہ نیچ اپنے  یا پرائے کیوں نہ ہوں ۔ 

اس لیے لازمی ہے کہ ہم کسی صنفی تضاد کے اپنے آپ کو ہر وقت ری آرگنائز کرتے رہیں ،ہم ایک حدف رکھیں مثلا  اگر کوئی سیاسی سماجی تنظیم 20 سال کے اندر فائدہ نہیں دے پارہاہے ، تو اس کے وجوہات ڈھونڈیں کہ کہاں کہاں کمی رہ گیا ہے ، قیادت میں  ،نام میں،کام کے انداز میں کمی ہے تو انھیں بدلیں وہ کام کریں جس سے قوم سرزمین کو فائدہ پہنچے ،قوم پھلے پھولے،علم سے سے آراستہ ہو ،صحت مند رہے، اور زمین میں ہریالی آئے ہر جگہ سبز ہ ہی سبزہ ہو۔  

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا  ہم حقیقی  قوم اور  انسانیت  یا کسی ابن الوقت فرد ، قبیلہ ،پارٹی ،جماعت
 ،تنظیم،یا ایسے گروہ کیلے اپنی، حال، بچوں ان کے مستقبل کو تباہ  کر رہے ہیں جو آزادی کے راستے کو وسعت دینےکے بجائے  سامنے رکاوٹ بننے کے باعث بن رہے ہیں ۔ ہمیں  وہ کمزوری کے اسباب بھی ڈھونڈنے ہونگے جو 76 سال سے ہمیں آزادی سے پیچھے دھکیلنے کے باعث بن رہے ہیں۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post