شال بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بساک کے طلباء نے کوہلو لائبریری پر سرکاری قبضہ کے خلاف پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ
بلوچستان جو ایک امیر ترین، جغرافیائی حوالے سے اہم اور سٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے مسائل کا گڑھ بن چکا ہے جہاں بنیادی انسانی سہولیات ناپید ہیں۔ پینے کے صاف پانی سے لیکر تعلیم اور صحت جیسے سہولیات یہاں کے باشندوں کیلیے ایک خواب بن چکے ہیں،بلوچستان حکومت اور اپوزیشن سمیت عالمی سامراجی کمپنیاں اور وفاق دونوں ہاتھوں سے بے رحم لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ مقامی لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں، مگر دل کو روؤں یا جگر کو پیٹوں کے مصداق، کوئی اپنی فریاد لیکر جائے تو کہاں؟
انھوں نے کہاکہ کوہلو جو ایک پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں نہ صحت کے سہولیات ہیں نہ تعلیم کے ، پورے ضلع میں ایسا تعلیمی ادارہ وجود نہیں رکھتا جہاں غریب کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں ۔ کوہلو جو ایک بڑی آبادی پر مشتعمل علاقہ ہے جن میں ماوند، کاہان،ہوسڑی ، جنت علی شامل ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آباد ہیں لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان علاقہ جات میں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلٰی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینکڑوں گھوسٹ اسکولیں سرکاری کاغذوں میں چل رہی ہیں لیکن ان علاقوں کی بچے بچیاں اسکول اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں اور بیشتر بچے اپنے بچپن ہی مزدوری اور دیگر پیشوں سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوش قسمتی سے اگر کوئی طالبعلم میٹرک تک تعلیم حاصل بھی کر لیتا ہے تو انٹرمیڈیٹ کےلیے کوہلو شہر کی جانب جاتا ہے لیکن ڈگری کالج فعال نہ ہونے کی وجہ تعلیم یہی سے ترک کردیتے ہیں۔
طلباء نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ کوہلو طالبات کےلیے پورے علاقہ میں وومن کالج سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ مگر جب پچھلے سالوں لائبریری کا اعلان ہوا تو وہاں کے علم دوستوں کو یہ خوشی محسوس ہوئی کہ کم از کم ایسی جگہ تعمیر ہورہی ہے ،جہاں سکون سے طلبا بیٹھ کر پڑھ سکیں۔ مگر شاید آپ حضرات کو بھی میڈیا کے توسط سے معلوم ہوا ہوگا اس پبلک لائبریری کو علم دشمن عناصر نے ڈسٹرکٹ چیرمین کا دفتر بنایا جوکہ خلاف قانون ہے۔ یہ لائبریری کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت ہے جنہوں نے کوہلو کے ڈپٹی کمشنر کو تحریری صورت میں حکم نامہ جاری کیا کہ لائبریری کو قبضہ گروہ سے واگزار کراکے کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرے۔ مگر ڈپٹی کمشنر نے بھی ایک ذمہدار حکومتی ادارے کے حکم نامے کو ہوا میں اچھال کر اسے ڈسٹرکٹ چیرمین کے حوالے کردیا ۔
انھوں نے کہاکہ اس قبضہ گروہ کے خلاف وہاں کے طالبعلموں نے احتجاجی طریقہ کار سمیت ضلعی ذمہداران کو ہر طرح سے گوش گزار کرانے کی کوشش کی۔ مگر ابھی تک لائبریری قبضہ گروپ کا دفتر بنا ہوا ہے۔ بحیثیت طلبا نمائندہ تنظیم بلوچستان کے تعلیمی مسائل سمیت لائبریری کیمپین ہمارے تنظیمی پالیسیوں کا حصہ ہے اور ہم بحثییت ادارہ کوہلو پبلک لائبریری کے قبضے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اس طرح کے تمام علم دشمن اعمال کے خلاف سیاسی مزاحمتی طریقہ کار پر یقین رکھتے ہیں۔
طلباء نے پریس کانفرنس دوران اعلان کیاکہ لائبریری کو جلد فعال نہیں کیا گیا تو تنظیم احتجاج عمل کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
انھوں نے کوہلو کے باشعور عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وہ میر مٹھا خان، صورت خان مری، شیر محمد مری جیسے اکابرین کے علم دوستی اور دانشورانہ حیثیت کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر علم دشمن عناصر اور قبضہ گروپ کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے نسلوں کی ترقی اور علمی راہ پر رکاوٹ بننے والوں کی خلاف سیاسی مزاحمت کریں۔